Wednesday, September 27, 2017

ایلی کوہن



ہماری یہ تحریر سرگزشت دسمبر 2016 کے شمارے میں شائع ہوئی۔


ایلی کوہن
----------------------------------------------------------------
آپ سب نے جیمز بونڈ کا نام ضرور سنا ہو گا، اس کی فلمیں بھی دیکھی ہونگی۔ وہ کیسے مختلف ممالک میں خطرناک مشنز سر انجام دیتا ہے، مگر وہ ایک خیالی کردار ہے، آئیے آج آپ کی ملاقات ایک ایسے کردار سے کرواتے ہیں جو جیتا جاگتا انسان تھا ایک خطرناک (اسپائی) جاسوس تھا۔ اس کا تعلق اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے تھا۔
شول کوہن کا تعلق ایک صیہونی یہودی گھرانے سے تھا، وہ شام کے شہر ایلیپو کا رہنے والا تھا جہاں سے اس نے ۱۹۱۴ء میں نقل مکانی کی اور مصر کے شہر اسکندریہ میں آباد ہو گیا۔ ۱۹۲۴ء کو شول کوہن کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ایلیاہو کوہن رکھا گیا جو بعد میں ایلی کوہن کے نام سے مشہور ہوا، اس کا شمار دنیا کے خطرناک ترین جاسوسوں میں ہوتا ہے۔وہ تعلیم حاصل کرتارہا اسکول کے بعد کالج میں پہنچا، ان دنوں مصر میں غیر مسلموں پر جزیہ دینا لازم تھا تاہم اگر وہ فوج میں ہوں تو جزیہ معاف ہو جاتا تھا۔ جنوری ۱۹۴۷ء ایلی کوہن نے بھی جزیہ کی ادائیگی کے بدلے فوج میں بھرتی کی درخواست دی جو اس کی مشکوک وفاداری کی بناء پر رد کر دی گئی۔
ان دنوں اخوان المسلمین کا زور کافی بڑھ گیا تھا خصوصاََ تعلیمی اداروں میں، کوہن یونیورسٹی میں تھا مگر اخوان کے خوف سے اس نے یونیورسٹی چھوڑ دی اور گھر پر پڑحائی شروع کر دی۔ 
اس دوران مغرب کی سازشوں اور حمایت کی بناء پر اسرائیل کا قیام عمل میں آ گیا، جس کے بعد کئی یہودی خاندانوں نے مصر چھوڑ دیا اور اسرائیل میں بس گئے۔کوہن کا رابطہ ان صیہونیوں سے ہو گیا اور وہ ایک سہولت کار بن گیا۔ کوہن کے والدین اور تین بھائی ۱۹۴۹ء میں اسرائیل چلے گئے مگر وہ اپنی الیکٹرونکس کی ڈگری مکمل کرنے اور صیہونی سازشوں میں حصہ لینے کے لیے رک گیا۔
۱۹۵۲ء میں فوج نے مصر کے آخری بادشاہ کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قنضہ کر لیا، شاہ فاروق اٹلی فرار ہو گیا جہاں تین سال بعد اس کا انتقال ہو گیا۔اس انقلاب کے ساتھ ہی صیہونی مخالف تحاریک کا آغاز ہو گیا جس میں شک کی بنا پر کوہن کو بھی پکڑ لیا گیا اور اس سے صیہونی سرگرمیوں سے متعلق پوچھ گچھ کی گئی، تاہم کوئی ثبوت نہ ہونے کی بناء پر اسے بعد میں رہا کر دیا گیا۔
اسرائیل نے موساد کے ذریعے ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۳ء تک ایک آپریشن چلایا تھا جسے آپریشن گوشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے تحت مصر اور دیگر ممالک سے یہودیوں کو اسمگل کر کے غیر قانونی اور خفیہ طور پراسرائیل پہنچایا جاتا تھا، اس آپریشن کے ذریعے صرف مصر سے تقریباََ دس ہزار یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا گیاتھا۔۱۹۵۰ء میں کوہن بھی اس آپریشن کا حصہ تھا ،اس نے کئی اسرائیلی خفیہ کارروائیوں میں حصہ لیا، مگر مصری حکومت شک ہونے کے باوجودآپریشن گوشن میں اس کے ملوث ہونے کی تصدیق نہیں کر سکی۔ 
۱۹۵۵ ء میں اسرائیل نے ایک تخریبی یونٹ تشکیل دیا جس میں موساد اور مصری یہودی شامل تھے۔ ان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ مصر میں بڑے پیمانے پر تخریب کاری کی جائے ، خاص طور پر مصر میں موجود امریکی و برطانوی تنصیبات کو تباہ کریں اور یہ کام اس طرح کریں کہ کہیں موساد کا نام نہ آئے بلکہ یہ ظاہر ہو جیسے مصری مسلمان یہ تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں۔مگر مصری حکومت نے اس سازش کو ناکام بنا دیا تخریبی گروہ بے نقاب ہو گیا اور اس کے دو ارکان کو سزائے موت دے دی گئی۔کوہن نے بھی اس یونٹ کی مدد کی تھی اور وہ اس سازش میں پوری طرح ملوث تھا مگر خوش قسمتی سے ایک بار پھر اس کے خلاف کوئی ثبوت نہ مل سکا، اس بار بھی وہ بچ گیا۔ 
۱۹۳۶ء میں مصری حکومت نے برطانیہ سے ایک معاہدہ کیا تھا جسے اینجلوایجیپشن ٹریٹی کہتے تھے جس کے تحت برطانیہ اپنی فوجیں مصر سے نکال لے گا صرف دس ہزار فوجی وہاں رہیں گے جو نہر سوئز کی حفاظت پر متمکن ہوں گے۔اب جمال عبدالناصر کی حکومت اس معاہدے کو منسوخ کرنا چاہتی تھی اور گزشتہ دو سال سے برطانیہ سے سوئز کنال کا علاقہ خالی کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔
اس دوران مصری افواج اسرائیل کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں مصروف تھیں۔ کہ ۱۹۵۶ء میں اسرائیل نے ایک اور سازش تیار کی جس میں بعد ازاں برطانیہ اور فرانس بھی اس کے حلیف ہو گئے۔اس سازش کے تحت نہر سوئز پر دوبارہ مغربی قبضہ بحال کرنا تھا ساتھ ہی جمال عبدالناصر کو صدارت سے ہٹانا تھا۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تینوں ممالک نے مل کر مصر پر حملہ کر دیا، جب سوئز جنگ چھڑی تو امریکا، سوویت یونین اور اقوام متحدہ نے تینوں حملہ آوروں پر زور دیا کہ فوری جنگ بندی کر دی جائے، یہ جنگ بندی برطانیہ اور فرانس کے لیے ذلت آمیز تھی مگر مجبوراََ انہوں نے یہ بات مان لی۔ اس کامیابی نے جمال عبدالناصر کو اور مضبوط کر دیا۔
سوئز بحران میں یہودیوں کا کردار ، ان کی مکاری اور سازشوں کی وجہ سے مصری حکومت نے ان کو نکالنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو مصر سے نکال دیا گیا۔ ۱۹۵۶ء کے دسمبر میں کوہن کو بھی ایک ناپسندیدہ اور مشکوک شخصیت ہونے کی بناء پر مصر چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ وہ یہودی ایجنسی کی مدد سے اسرائیل چلا گیا، اسے نیپلز کے راستے حیفہ کی بندرگاہ پہنچایا گیا۔
۱۹۵۷ء میں کوہن کو اسرائیلی فوج میں بھرتی کر لیا گیا جہاں اس کو ملٹری انٹیلی جنس میں کاؤنٹر انٹیلی جنس انالسٹ کا عہدہ دیا گیا۔ اسے یہ کام پسند نہیں آیا اس لیے بیزار ہو کر اس نے موساد کو جائن کرنے کی درخواست دی، جسے موساد نے مسترد کر دیا، وہ بہت ناراض ہوا اور اس نے انٹیلی جنس سے بھی استعفی دے دیا۔
اگلے دو سال اس نے تل ابیب میں ایک انشورنس آفس میں فائیلنگ کلرک کا کام کیا ، اس دوران اس کی ملاقات ایک عراقی یہودی تارک وطن خاتون نادیہ مجلڈ سے ہوئی جلد ہی ان کی دوستی ہو گئی جو بعد ازاں محبت اور پھر شادی پر منتج ہوئی، ان کی شادی ۱۹۵۹ء میں ہوئی ان کے ہاں تین بچے شائی، ارت اور صوفی ہوئے۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ بیت یام منتقل ہو گیا۔
ان دنوں موساد کواپنے نئے منصوبے کے لیے ایک ایسے ایجنٹ کی ضرورت پڑی جو شام میں رہ کر شامی حکومت کے خلاف جاسوسی کر سکے۔ موساد کے ڈائرکٹر میئر امیت نے کئی فائل منگوائے ہوئے تھے ان میں ان لوگوں کے فائل بھی تھے جنہیں برسوں پہلے مسترد کیا جا چکا تھا۔ان فائلوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی نظر ایلی کوہن کی فائل پر پڑی تو بے اختیار اس کی زبان سے نکلا مجھے جس شخص کی تلاش تھی وہ یہی ہے ۔اس نے فوری آرڈر جاری کیا کہ اسے ڈھونڈ کر لاؤ۔ ایجنٹوں نے پتہ لگایا اور اسے لے آئے ، میئر امیت نے اس سے بات کی اس نے کچھ پس و پیش کے بعد حامی بھر لی۔اب اس کو دو ہفتے نگرانی میں رکھ کر اس کے مختلف ٹیسٹ لیے گئے جس سے پتہ چلتا کہ وہ اس کام کے لیے موزوں ہے بھی یا نہیں، اس نے سارے امتحان پاس کر کے ثابت کر دیا وہی اس کام کے لیے سب سے موزوں امیدوار ہے۔چنانچہ اسے خوش خبری سنا دی گئی کہ موساد نے اسے اپنے کام کے لیے چن لیا ہے۔
۱۹۶۰ء میں اس کو باقاعدہ موساد میں بھرتی کر لیا گیا، اب اس کی ٹریننگ کا دور شروع ہوا چھ مہینے کی ٹریننگ کے بعد اسے کٹسا یعنی فیلڈ ایجنٹ کا مرتبہ مل گیا۔اس ٹریننگ کے دوران اسے ایک جعلی شناخت اور گھنی داڑھی کے ساتھ ایک شیخ محمد سلمان سے یروشلم یونیورسٹی کے ایک طالب علم کے طور پر متعارف کروایا گیا۔اگرچہ کوہن عرب مسلمانوں کے انداز زندگی و ثقافت سے اچھی طرح واقف تھا ،مگر موساد چاہتی تھی کہ اس میں خود کو ایک مسلمان ظاہر کرنے میں کہیں بھی کوئی بھی کمی نہ رہ جائے کیونکہ مشن بہت اہم تھا۔ چند ماہ شیخ سلمان کے ساتھ گزارنے کے بعد اسے تجارت کے رموز بھی سکھائے گئے۔
۱۹۶۱ء مارچ کی پہلی تاریخ کو ایلی کوہن سوئز ائر کے طیارے میں سوار ہوا جو زیورخ سے بیونس آئرس ارجنٹینا جا رہا تھا،وہ ایک بڑے بزنس مین کی حیثیت سے فرسٹ کلاس میں تھا، اس کے کاغذات میں اس کا نام کمال امین ثابت درج تھا اس کی پاسپورٹ اسے ایک لبنانی نژاد شامی ثابت کر رہی تھی۔ بیونس آئرس میں شام سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد مقیم تھی۔
یہاں کوہن نے خود کو ایک سنجیدہ، متین، سمجھدار،متقی اورمحب وطن شخصیت کے طور پر پیش کیا۔ وہ جلد ہی بیونس آئرس کی شامی برادری میں ایک مقبول اور ہر دلعزیز شخص مشہور ہو گیا۔ موساد نے یہ سب کچھ اس لیے کیا تھا کہ وہ اسے شام جانے سے پہلے ہی ایک ایسا بیک گراؤنڈ دیں اور ایسی مقبول شخصیت بنا دیں جو اسے شام میں آسانیاں مہیا کرے۔موساد کو یقین تھا کہ شامی انٹیلی جنس یقیناََ کمال امین ثابت کے بارے میں جاننا اور اس کے ماضی کو کھنگالنا چاہے گی اس لیے انہوں نے پہلے ہی سے سب کچھ تیار رکھا تھا۔ دراصل کمال امین ایک حقیقی شخص تھا وہ لبنان میں شامی والدین کے ہاں پیدا ہوا تھا، مگر وہ کافی عرصہ پہلے مر چکا تھا، ہاں اگر وہ زندہ ہوتا تو کوہن کی ہی عمر کا ہوتا۔
اب کوہن نے اپنا کام شروع کیا وہ بیونس آئرس کے شامی سفارت خانے کی طرف سے دی جانے والی دعوتوں میں پابندی سے شریک ہوتا تھا۔ سفارت خانے کے ملٹری اتاشی میجر امین الحافظ اس سے بہت متاثر ہو گئے تھے اس نے خود کو محب وطن اور بعث پارٹی کا ہم خیال ظاہر کیا تھا۔اس کا نتیجہ حسب توقع نکلا اور میجر نے کوہن پر زور دینا شروع کیا کہ دمشق جائے وہاں اس کا مستقبل روشن ہے وہ وہاں بعث پارٹی کے لیے بھی کام کرے۔ بالآخر اس نے اپنی رضامندی ظاہر کر دی، تو میجر نے بات آگے پہنچا دی۔
جب شامی انٹیلی جنس تک یہ بات پہنچی تو ان کے ارجنٹین میں موجود ایجنٹوں نے کمال ثابت کے بارے میں تحقیقات شروع کیں۔ ایک دن جب وہ ذرا تاخیر سے گھر واپس آیا تو دیکھا کہ کسی نے گھر میں گھس کر تلاشی لی ہے اس کے کاغذات اور تصویروں کے البم الٹ پلٹ تھے۔ موساد نے اس کی جعلی شناخت کو مکمل بنانے اور ساتھ ہی ثابت کی پرانی خاندانی تصاویر اکٹھی کرنے میں جو مشقت اٹھائی تھی وہ آج کام آئی۔شامی انٹیلی جنس نے اطمینان ظاہر کیا کہ سب ٹھیک ہے اور یہ ایک تصدیق شدہ شامی شہری ہے۔ 
اب موساد نے اسے دمشق جانے کا اشارہ دے دیا، ان ہی دنوں جب کوہن جانے کی تیاری کر رہا تھا، میجر الحافظ کا تبادلہ دمشق میں ہو گیا۔کوہن نے میجر کو لکھا کہ میں دمشق آنا اور بعث پارٹی کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔
دسمبر ۱۹۶۱ء میں کوہن نے میونخ کا دورہ کیا اورایک ہوٹل میں تل ابیب سے آئے ہوئے اپنے کنٹرول سے ملاقات کی۔ہوٹل کے کمرے میں کٹسا اور کنٹرول کے مابین اس کے دمشق مشن کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے ساری چیزیں پھر سے چیک کیں۔ اس دوران موساد کی ایک ٹیکنیکل ٹیم نے کوہن کا سامان تیار کر دیا۔ جس میں ایک طاقتور ٹرانسمیٹر کو ایک الیکٹرک مکسر کے نقلی پیندے میں چھپایا گیا۔ ایک میناکس مائیکرو کیمرہ اسے دیا گیا جو بظاہر ایک الیکٹرک شیور لگتا تھا،ایک تار جس سے طویل فاصلے کے انٹینا کا کام لیا جا سکتا تھا ان کے علاوہ کچھ کیمیکلز جو دھماکہ خیز مادہ بنانے میں کام آتے تھے انہیں ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوبز اور شیونگ کریم کے ڈبوں میں چھپایا گیا تھا۔ 
۱۹۶۲ جنوری کی پہلی تاریخ کو کوہن دمشق پہنچا۔ عارضی طور پر وہ میجر کے ہاں ٹھہر گیا، پھر چند دن کی تلاش کے بعد اس کو ایک مہنگے علاقے ابو رمانہ میں ایک نئی عمارت کی چوتھی منزل پراپارٹمنٹ مل گیا۔ ابو رمانہ میں قریب ہی ملٹری ہائی کمانڈ اور انڈین ایمبیسی تھے۔
کوہن نے یہاں ایکسپورٹ بزنس شروع کیا اور جلد ہی شامی نوادرات، فرنیچر، بیکگیمن ٹیبلس، زیورات اور فن پارے یورپی ممالک کو برآمد کرنے شروع کر دیئے ۔ وہ اکثر حمیدیہ مارکیٹ کے قہوہ خانوں میں ترکش کوفی پیتا اور کاروبار یا سیاست پر گفتگو کرتا پایا جاتا تھا۔ اب وہ ایک خطرناک جاسوس بن چکا تھا۔ 
اس نے اپنے گھر پر بھی پارٹیاں دینا شروع کر دیں جس میں اعلی حکومتی اہلکاراور وزراء کے علاوہ اعلی کاروباری شخصیات وغیرہ بھی شامل ہوتی تھیں۔ ان دعوتوں میں اعلی حکومتی عہدیدار شریک ہوتے تھے جو اپنے دفتریے معاملات اور فوجی نقل و حرکت کے بارے میں کھلی گفتگو کرتے تھے۔کوہن نشے کا بہانہ کر کے خود کو بے خبر ظاہر کر کے ان کی باتیں غور سے سنتا تھااورضروری باتیں ذہن نشین کر لیتا تھا۔۔اس کے علاوہ وہ سرکاری حکام کو قرض فراہم کرتا تھا اور خود کو ان کا خیرخواہ ظاہر کرتا تھا۔سرکاری حکام اس کی فراہم کی ہوئی مفت شراب کے نشے میں اکثر خفیہ معاملات پراس سے مشورے لیتے تھے۔کوہن بذات خود ایک جاسوس کے طور پر رنگینیوں سے دور تھا۔مگر اس کے تعلقات شام میں سترہ خوبصورت خواتین سے تھے جن کا تعلق با اثر خاندانوں سے تھا۔اس کا اثرو رسوخ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ گرفتاری سے پہلے اس کا نام بطور نائب وزیر دفاع زیر غور تھا، یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ اس سے پہلے ہی اس کی اصلیت سامنے آ گئی ورنہ نہ جانے کیا ہو جاتا۔
کوہن نے ۱۹۶۱ سے ۱۹۶۵ تک بیشمار خفیہ معلومات اسرائیل کو فراہم کیں۔وہ معلومات ساتھ لائے ہوئے طاقتور ٹرانسمیٹر سیٹ کے ذریعے بھیجتا تھا۔ لمبی رپورٹیں اور مائیکرو فلمیں وہ ایکسپورٹ کیے جانے والے فرنیچر میں بنی مخصوص جگہوں پر چھپاتا تھا اور کبھی کبھار ذاتی طور پر پہنچاتا تھا، اس نے تین بار خفیہ طور پر اسرائیل کا سفر کیا تھا۔
اس نے خود کو ایک شوقیہ فوٹو گرافر کے طور پر بھی مشہور کر رکھا تھا۔ اس کے تعلقات بہت اونچے حکومتی اوراعلی فوجی حکام سے تھے اس لیے وہ آزادانہ فوجی تنصیبات کے دورے کرتا رہتاتھا اور تصویریں اتارتا تھا یہاں تک کہ وہ حساس مقامات میں بھی گھس کر تصویر کشی کرتا تھا۔ اس کی اتاری ان تصویروں سے اسرائیلی فوج اور موساد نے ۱۹۶۷ء کی چھ دن کی جنگ میں بہت کام لیا۔ اس کی سب سے بڑی کامیابی گولان کی پہاڑیوں کادورہ تھا جہاں سے اس نے شامی افواج کے مورچوں اور پناہگاہوں کے بارے میں انتہائی حساس نوعیت کی معلومات اکٹھی کیں۔ اس نے دیکھا شامی فوجی تپتے ہوئے سورج تلے مورچوں میں ڈیوٹی دے رہے ہیں گرمی سے سب کا برا حال ہے،تو شامی فوجیوں سے ہمدردی کا بہانہ کرتے ہوئے اس نے ان کی تمام پوسٹس پر درخت لگوا دیے کہ سورج کی تپش سے بچیں اور یہ ساری معلومات اسرائیل بھیج دیں۔۱۹۶۷ء میں دوران جنگ ،اسرائیلی فوج نے ان درختوں کو ہدف بنا کر حملہ کیا اور محض دو دن میں گولان پر قبضہ کر لیا۔ کوہن نے کئی بار جنوبی سرحدوں کا دورہ کیا اور وہاں سے شامی افواج کی پوزیشنوں کی تصاویر و نقشے بنائے۔وہاں اس کے علم میں شامی افواج کا ایک خفیہ منصوبہ آیا جو دفاع کے لیے بنکرز اور توپوں کی تین دفاعی لائنیں بنانے کا تھا،جبکہ اسرائیل کے علم میں صرف ایک ہی دفاعی لائن تھی۔
شام کے انٹیلیجنس ڈپارٹمنٹ میں نئے چیف کی تقرری ہوئی جس کا نام کرنل احمد سویدانی تھا وہ کسی پر بھروسہ نہیں کرتا تھا اور کوہن کوبالکل پسند نہیں کرتا تھااسے یقین کی حد تک شبہ تھا کہ شام میں کوئی اسرائیلی جاسوس ہے جو خفیہ معلومات اسرائیل کو دے رہا ہے۔ اس کی وجہ سے کوہن کو اپنے پکڑے جانے کا خوف ہوا۔ اس نے آخری خفیہ اسرائیلی دورہ جو ۱۹۶۴ نومبرمیں کیا ، اس دورے کے دو مقاصد تھے ایک تو خفیہ معلومات پہنچانا دوسرے اپنے تیسرے نوزائدہ بچے کو دیکھنا۔اس نے موساد کو خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے شام میں اپنی خدمات سے سبکدوشی کی درخواست دی۔ مگر موساد نے اس سے کہا کہ بس ایک آخری بار اور جاؤ اس کے بعد تمہیں سبکدوش کر دیا جائے گا۔ واپسی سے قبل اس نے اپنی بیوی سے مل کر کہا کہ اب میں آخری بار جا رہا ہوں اور اس کے بعد ہمیشہ کے لیے تمہارے پاس آ جاؤں گا۔
جنوری ۱۹۶۵ میں شام نے روس کی مدد سے اعلی سطح پر کسی اسرائیلی جاسوس کی تلاش شروع کی۔ اس سلسلے میں روس کے بنے جدید ترین آلات سراغرسانی روسی ماہرین کی زیر نگرانی استعمال کیے جا رہے تھے۔
انڈین ایمبیسی کا معمول تھا وہ روز رات کو نئی دحلی سے وائرلیس پر رابطہ کر کے اپنے کام نمٹاتے تھے مگر اکثر انہیں شکایت ہوتی تھی کہ ان کے سگنلز میں کوئی مداخلت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ صاف رابطہ نہیں کر پاتے تھے۔آخر انہوں نے انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ کو شکایت دی کہ ہمیں یہ مشکل پیش آ رہی ہے۔ شامی ماہرین نے علاقے میں جا کر چیک کیا تو پتہ چلا کہ یہاں کہیں سے غیر قانونی ریڈیو نشریات جاری ہیں۔ انہوں نے سوویت یونین سے درآمد شدہ گاڑی منگوائی جو ٹریکنگ کے آلات سے لیس تھی۔ اس کے ذریعے وہ اس علاقے میں تلاش کرتے رہے ۔ یہ تلاش چند دن تک جاری رہی اور بالآخر انہوں نے ان نشریات کے مخرج کا پتہ لگا لیا۔ ۲۴ جنوری شامی سیکیورٹی آفیسرزنے ایسے وقت کوہن کے اپارٹمنٹ پراچانک چھاپا مارا جب وہ ٹرانسمیٹر پر اسرائیل سے رابطہ کر رہا تھا۔ اسے ملٹری ٹریبیونل کے سامنے پیش کیا گیا جہاں اس پر مقدمہ چلا اور وہ جاسوسی و خفیہ معلومات کی ترسیل کا مجرم پایا گیا۔ اسے مارشل لاء قانون کے تحت سزائے موت سنائی گئی۔ کوہن نے موقف اختیار کیا کہ اسے بار بار تشدد کا نشانہ بنا کرتفتیش کی گئی اورزبردستی اعتراف کروایا گیا ہے، مگر اس کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود تھے نیز اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھاس۔ اسرائیل نے اس کے لیے ایک بین الاقوامی مہم چلائی کہ شام اسے سزائے موت نہ دے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گولڈا میئرکی قیادت میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیاکہ وہ دمشق پر دباؤ ڈالے کہ کوہن کو پھانسی دیے جانے سے پہلے نتائج پر غور کر لے۔ سیاستدانوں، وزراء اعظم اور پوپ پال ۶ نے اس کی جان بخشی کی سفارش کی ، یہانتک کہ گولڈا میئر نے سوویت یونین سے بھی اپیل کی۔ فرانس بیجیئم اور کینیڈا کی سفارشات کے باوجود بھی شامی حکومت نے سزائے موت برقرار رکھی۔ ۱۵ مئی ۱۹۶۵ کو کوہن نے اپنا آخری خط اپنی بیوی نادیہ کے نام لکھا ۔، میری پیاری نادیہ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ جو گزر چکا اس پر رو کر اپنا وقت مت ضائع کرنا، اپنی ذات پر توجہ مرکوز کرو اور بہتر مستقبل کی طرف دیکھو۔ 
پھانسی کے دن جیل میں اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کسی ربی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی جسے منظور کر لیا گیا المرجۃ چوک کی طرف جاتے ہوئے ٹرک میں اس کیساتھ ۸۰ سالہ شام کے چیف ربی نسیم اندبوبھی تھے۔ ۱۸ مئی ۱۹۶۵، کوہن کودمشق کے المرجۃ چوک میں سرعام پھانسی پر لٹکا دیا گیا، اور اس کی لاش کسی نامعلوم مقام پر دفنا دی گئی۔
نومبر ۱۹۶۵ میں کوہن کی بیوی نادیہ نے صدر حافظ الاسد کو خط لکھا جس میں اس نے اپنے شوہر کے کیے گئے جرائم و ملک دشمن اقدامات کی معافی مانگی اور اس کی باقیات کی وصولی کی امید ظاہر کی۔مگر شامی حکام نے اسے مسترد کردیا۔اس کے بعد بھی کوہن کے خاندان کی طرف سے ایسی درخواستیں دی جاتی رہیں مگر شامی حکام نے سب مسترد کر دیں۔ اگست ۲۰۰۸ میں منذر موصلی سابقہ بیورو چیف آف آنجہانی شامی صدر حافظ الاسد نے انکشاف کیا کہ ایلی کوہن کا مدفن نا معلوم ہے۔ اس نے دعوی کیا کہ شامیوں نے کوہن کو تین بار دفن کیا ہے، تاکہ موساداس کی باقیات کو حاصل کر کے اسرائیل لے جانے کے لیے کوئی خصوصی کارروائی نہ کر سکے۔ کوہن کے بھائی ابراہام اور مورس نے اس کی باقیات کو واپس لانے کی مہم شروع کی تھی،مورس ۲۰۰۶ میں مر گیا اب کوہن کی بیوہ نادیہ اس مہم کو چلا رہی ہے۔کوہن کو اسرائیل میں قومی ہیرو کا درجہ دیا گیا ہے بہت سی سڑکیں اور جگہیں اس کے نام سے موسوم ہیں۔ 
اس نے شام کو اور مسلمانوں8 کو بہت نقصان پہنچایا اس کی وجہ سے اسرائیل بآسانی گولان پر قابض ہوگیا۔ اسے بیسویں صدی کا سب سے خطرناک جاسوس قرار دیا جاتا ہے۔
اس کی پھانسی کی ویڈیو اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے۔ http://www.liveleak.com/view?i=9b8_1397229454&comments=1




No comments:

Post a Comment