Saturday, February 24, 2018

جاسوسہ

 سرگزشت جنوری 2018 کے مرگ ناگہاں نمبر میں شائع ہونے والی ہماری تحریر۔




جاسوسہ

------------------------------

خفیہ ادارے کے سربراہ نے اپنے سامنے بیٹھی نوجوان اور خوبصورت دوشیزہ کی طرف دیکھا جس کی حرکتوں سے اضطراب جھلک رہا تھا وہ بار بار پہلو بدل رہی تھی، ملیح چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا ایک جا رہا تھا ، آنکھوں سے امید و بیم کی کیفیات جھلک رہی تھیں۔سربراہ نے اپنے سامنے رکھی فائل پر نظر دوڑائی اور پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا : ’’ نورا بیکر، تم کو پیرس میں تعیناتی کے لیئے منتخب کیا گیا تھا۔ مگر تمہارے اساتذہ کا کہنا ہے کہ تم ایک کمزور اعصاب کی مالک ہو جلد گھبرا جانے والی۔ تم آتشی اسلحے کے استعمال سے بھی گھبراتی ہو۔تمہیں پتہ ہونا چاہیئے کہ یہ ایک جاسوس کے لیئے بہت خطرناک بات ہے‘‘۔لڑکی خاموش رہی تو سربراہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’ دوسری طرف تم لاسلکی آلات اور مورس کوڈ کے استعمال میں ماہر ہو، تمہاری اضافی خوبی یہ ہے کہ تم نے زندگی پیرس میں گزاری ہے۔ تم اس شہر سے اچھی طرح واقف ہونے کے علاوہ فرانسیسی بھی اہل زبان کی طرح بول سکتی ہو‘‘۔
سربراہ نے اپنے سامنے رکھے پروانہ تقرر پر دستخط کر کے مہر لگا دی اور اسے دوشیزہ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔ ’’نورا بیکر، ہم آپ کواس مشن کے لیئے منتخب کر رہے ہیں ، آپ کا تقرر خفیہ اہلکار کے طور پر کیا جا رہا ہے اور آپ کو پیرس بھیجا جا رہا ہے۔ مبارک ہو‘‘ ۔
دوشیزہ نے بے یقینی سے کاغذ کی طرف دیکھااور لرزتے ہاتھ بڑھا کر اسے تھام لیا، اس کی آنکھیں بھر آئیں ،اس کے کانپتے ہونٹوں سے بھرائی ہوئی آوازبرآمد ہوئی۔’’ شکریہ جناب بہت بہت شکریہ،جو مہم بھی میرے سپرد کی جائیگی میں اسے پورا کرنے کے لیئے اپنی جان پر بھی کھیل جاؤں گی‘‘۔
نورا بیکر جسے اتنی عزت دی جا رہی تھی وہ کوئی یورپی یا امریکی دوشیزہ نہیں تھی۔ وہ بر صغیر سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کی کہانی ٓگے بڑھانے سے پہلے اس کے بزرگوں پر روشنی ڈال دوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چولے خان / مولا بخش
سال 1833عیسوی کو میسور کے ایک زمیندار خاندان میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام چولے خان رکھا گیا۔ اس کی پیدائش کے فوراََ بعد اس کے والد کا انتقال ہو گیااور کچھ ہی عرصے بعد اس کی والدہ بھی چل بسیں۔ اب چولے خان اکیلا رہ گیا تھا، اس پرآشوب وقت وقت پر اس کے ایک چچا نے ہمت دکھائی اور یتیم بھتیجے کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔
چچا کے زیر کفالت اس نے ہوش سنبھالا تو اس کی تعلیم کا آغاز کیا گیا۔ان دنوں برصغیر میں سب سے مقبول کھیل کشتی تھی۔ اس کھیل سے دلچسپی رکھنے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس نے بھی اس کھیل میں دلچسپی لینا شروع کر دیا۔ان دنوں وہاں کئی اکھاڑے بنے ہوئے تھے جہاں نوجوان زورآزمائی کیا کرتے تھے ۔ اس نے بھی کشتی کی تربیت لینی شروع کر دی۔ مگر اس کے اندر کوئی چیز تھی جو اسے بے چین کر رہی تھی۔ اس لیئے جلد ہی اس کا دل اکھاڑے سے اچاٹ ہو گیا ۔ اس نے اکھاڑے جانا بند کر دیا۔ اب اس کی اندرونی بے چینی اسے لیے لیے پھرنے لگی۔ وہ سارا سارا دن گاؤں سے باہر ویرانوں میں بھٹکتا رہتا تھا۔
وہ مردم بیزار نہیں تھا وہ عام زندگی میں بہت خوش اخلاق اور ملنسار تھا، مگر جب اس پر ایک کیفیت سی طاری ہوتی تو وہ ویرانوں کی طرف نکل جاتا تھا۔ جب اس کی عمر پندرہ برس کی ہوئی تو ایک روزوہ اسی کیفیت کے تحت گاؤں سے باہرنکل گیا۔
گاؤں کے باہر دور دور تک کھیت پھیلے ہوئے تھے۔وہ ان کی ہریالی کو نظر انداز کرتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا ۔
جب اس پر تھکن طاری ہونے لگی تو وہ ایک کھیت کی منڈھیر پر جا بیٹھا۔ اسے وہاں بیٹھے ہوئے زیادی دیر نہ ہوئی تھی کہ سامنے سے آتا ہوا ایک درویش نظر آیا۔ اس نے اپنی جگہ چھوڑ دسی اور اس درویش کی جانب بڑھنے لگا۔نزدیک پہنچ کر اس نے سلام کیا۔ درویش نے سلام کا جواب دے کر کہا۔’’ کیا تمن اسی گاؤں میں رہتے ہو
‘‘؟
اس نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا۔’’جی ہاں‘‘۔
’’میں کافی دور سے چلتا ہوا آیا ہوں۔ سوچاہے کہ یہاں رک کر تبلیغ کروں گا۔‘‘
’’یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ کوئی اللہ والا ہمارے گاؤں کی طرف آیا ہے۔
‘‘
اس درویش کا تعلق چشتی سلسلے سے تھا۔ چشتی سلسلے میں سماع کو خاص اہمیت حاصل ہے، وہ سماع کے ذریعے خود پر ایک جذب کی سی کیفیت طاری کر کے مراقبہ کرتے ہیں۔درویش نے اس کی طرف دیکھ کر کہا ۔’’ تمہاری آواز بہت اچھی ہے کچھ گا کر سناؤ۔‘‘
چولے خان نے کہا ’’مجھے گانا نہیں آتا۔ ‘‘ مگر درویش نے ضد باندھ لی۔ 
کئی بار کے اصرار پر چولے نے ایک لوک گیت سنایا جسے سن کر درویش بہت متاثر ہوا اور خوش ہو کر بولا ’’ تمہارا بہت بہت شکریہ کہ تم نے میری بات مان لی
‘‘۔ 
درویش نے اسے اپنے سلسلے میں بیعت کر لیا اور ایک نیا نام مولا بخش دیا۔ یہ اس کی زندگی کا ایک بڑا موڑ تھا۔ اس دن سے اس نے خود کو مولابخش کہلوانا شروع کر دیا۔ ان کے خاندان میں موسیقی کو پہلے سے ہی اہمیت حاصل تھی اس کے دادا انور خان بھی ایک بڑے مشہور گائک تھے ۔مگر وہی ایک تھا جو اب تک اس فن سے محروم تھا۔ جب اس کی عمر اٹھارہ برس کی ہوئی تو اسے موسیقی سیکھنے کا شوق ہوا۔اس نے اپنے سرپرست چچا سے اجازت لے کر موسیقی سیکھنے کا آغاز کیا ۔ اس سلسلے میں اس نے مختلف علاقوں کا سفر بھی کیا اور مختلف لوگوں سے اکتساب فن بھی۔ایک دن وہ ایک جگہ سے گزر رہا تھا کہ اس کے کانوں میں کسی کے گانے کی آواز پڑی۔ اس کے قدم وہیں رک گئے وہ بے خود سا ہو کے ساز و آواز کے اس ساگر میں ڈوب سا گیا، جب راگ ختم ہوا تو اس نے معلوم کیا کہ یہاں کون رہتا ہے تو پتہ چلا یہ استاد گھسیٹے خان کا گھر ہے۔ اب وہ روزانہ وہاں آنے لگا ۔ مگر کبھی استاد کے سامنے نہیں گیا بس باہر سے ہی سن کر موسیقی کے اسرار و رموز سے آشنا ہوتا رہا۔وہ استاد کو سن کرگھر جاتا اور اس کی مشق کرتا۔ایک بار ایسا اتفاق ہوا کہ استاد گھسیٹے خان مولا بخش کے گھر کے پاس سے گزر رہے تھے کہ ان کے کانوں میں اپنی ہی ترتیب دی ہوئی دھن پڑی جسے کوئی اجنبی گا رہا تھا۔وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا مولا طخش بھی ان کو اپنے دروازے پر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے استاد کو جھک کر سلام کیا اور بڑی عزت سے اندر لا کر بٹھایا۔ 
استاد نے پوچھا ’’یہ کون گا رہا تھا
‘‘؟
مولا بخش گھبراتے ہوئے: ’’ جی، جی وہ ، میں گا رہا تھا‘‘۔
’’ تم نے یہ دھن کہاں سے سیکھی؟‘‘ 
 میں روزانہ آپ کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر آپ کو گاتے سنتا تھا پھر گھر پر مشق کرتا تھا
‘‘۔’’
گھسیٹے خان نے حیرت سے اس نوجوان کو دیکھا اور کہا ’’ کیا تم میرے باقاعدہ شاگرد بننا پسند کرو گے؟
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔مولا بخش کی آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ رقت سے بولا ’’ یہ تو میری خوش نصیبی ہے کہ آپ کا شاگرد بنوں
‘‘۔‘‘
اس دن سے اس نے گھسیٹے خان سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت لینی شروع کر دی۔ یہ سلسلہ گھسیٹے خان کی موت تک چلتا رہا۔ 
گھسیٹے خان کی موت کے بعد مولا بخش نے ایک گائک کی حیثیت سے اپنا فنی سفر شروع کردیا۔ بہت جلد ہر طرف اس کی آواز کا جادو پھیل گیا ۔ اسے راجاؤں اور نوابوں کی طرف سے بلاوے آنے لگے۔ اسے سننا اعزاز سمجھا جانے لگا۔جب وہ مشہور ہو گیا تو جیسا کہ دستور ہے اس کے حاسد بھی پیدا ہو گئے یہ وہ ہندو براہمن تھے جو موسیقی کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے تھے۔ ایک موقعے پر برہمنوں نے اس پر اعتراض کیا کہ چونکہ وہ برہمن نہیں ہے اور نہ کسی برہمن کا شاگرد اس لیے اسے کلاسیکی موسیقی گانے کا حق حاصل نہیں ہے۔
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس اعتراض کو خود پر سے ہٹائے گا، چنانچہ وہ ایک برہمن فنکار کے پاس پہنچا اور اس کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔ وہ برہمن اوروں کی طرح متعصب نہیں تھا اس لیئے جو فن اس کے پاس تھا وہ مولا بخش کو سکھانے میں اس نے کسی بخل سے کام نہیں لیا، یہاں تک کہ سنسکرت کے پرانے راگ اور گیت بھی سکھا دیئے۔ اب وہ لوٹ کر میسور پہنچا مگر یہاں برہمن اب بھی اس کی حیثیت کو متنازعہ بنانے پر تلے ہوئے تھے ۔معاملہ یہاں تک بڑحا کہ برہمنوں نے اس پر کیس کر دیا۔کیس چلا تو عدالت میں یہ طے پایا کہ سب اپنا اپنا فن پیش کریں یہ مقابلے کوئی دس ماہ تک جاری رہے، ایک طرف پنڈت تھے دوسری طرف اکیلا مولا بخش۔ لیکن جب مولا بخش نے نے اپنا فن پیش کیا تو سب سکتے میں رہ گئے اور مولا بخش کو فاتح قرار دے دیا گیا ۔ اس کے مخالف برہمنوں کے منہ بند ہوئے ۔اب وہ ایک مستند گائک کی حیثیت رکھتا تھا۔
اس کی شادی قاسم بی سے ہوئی جس کا تعلق بعض روایات کے مطابق ٹیپو سلطان شہید کے خاندان سے تھا جبکہ بعض روایات اس کا تعلق مغل خاندان سے جوڑتی ہیں۔ اکثر محققین کا خیال ہے کہ وہ ٹیپو شہید کے خاندان سے تھی اسی لیے اپنی شناخت چھپا کر رکھتی تھی۔ یہ تو مصدقہ امرہے کہ وہ کسی شاہی خانوادے سے تعلق رکھتی تھی، اس کے اندر ایک خاص وقار و تمکنت تھی جو شاہی خاندان کے لوگوں کے لیئے مخصوص ہے۔ اس بارے میں اس نے اپنے بچوں کو بھی بتایا تھا مگر بچوں نے بھی اس بارے میں زبان بند رکھی اورکسی کو بھی تفصیل بتانے سے ہمیشہ گریز کیا۔ قاسم بی سے اس کی چاراولادیں ہوئیں خدیجہ بی بی، مرتضی خان، فاطمہ بی اور عنایت بی۔قاسم بی چاہتی تھی کہ اس کے بچے بھی اس کے نقش قدم پر چلیں اور اپنے ننھیال کے شاہی انداز اختیار کریں، ان میں خدیجہ بی بی نے اپنی ماں کا اثر کچھ زیادہ ہی قبول کیا تھا وہی انداز وہی وقاروہی تمکنت جیسے کوئی شہزادی ہو۔اس خدیجہ بی بی کی شادی ایک مشہور گائک رحمت خان پٹھان سے ہوئی جس کا تعلق بڑودا سے تھا۔
مولا بخش نے ایک اور شادی امیر بی سے بھی کی تھی جس سے ایک بیٹا علاء الدین تھا جو ڈاکٹر اے ایم پٹھان کے نام سے مشہور تھا، ان کے بارے میں زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں۔
اب مولا بخش اس مقام پر تھا کہ کئی والیان ریاست نے اسے دعوت بھیجی کہ وہ ان کے دربار سے وابستہ ہو جائے،اس نے بڑودا کے مہاراجا کانڈا راؤ کی دعوت قبول کر لی ۔وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بڑودا پہنچ گیا۔یہاں اسے درباری سازشوں اور حسد کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے بے مزہ ہو کر اس نے وہاں سے رخت سفر باندھ لیا ۔ اس نے سر سالار جنگ کی دعوت قبول کر لی اور وہ حیدرآبادجا کر وہاں دربار سے وابستہ ہو گیا۔ حیدرآباد میں اس نے موسیقی کے حوالے سے کافی کام کیا کچھ نئے تجربات بھی کیے ۔
اس دوران مہاراجا کانڈاراؤ کا انتقال ہو گیا تو مولا بخش بڑودا لوٹ آیا۔ اس نے نئے مہاراجا کے دربار میں پیش ہو کر اپنے فن کا مظاہرہ کر کے داد سمیٹی۔ اسی دوران اس کے علم میں نئے مہاراجا کے باغیانہ خیالات آئے جو انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تھا۔ مولا بخش چونکہ ایک فنکار تھا اور سیاست سے دور رہتا تھا اس لیے اس نے ایک بار پھروہاں سے کوچ کی ٹھان لی۔ اس بار بڑودا سے نکل کروہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گیا ۔ اس دوران اس کو مغربی موسیقی سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔ اس نے اب تک خود کو مشرقی موسیقی تک محدود رکھا تھا ، مغربی اور مشرقی موسیقی میں بہت فرق تھا۔ یہاں اس نے اس دور میں ایک جراٗت مندانہ فیصلہ کیا کہ میں مغربی موسیقی بھی سیکھوں گا۔ اس نے مغربی موسیقی کی تربیت لی اور اس میں نت نئے تجربات کیئے اس نے دونوں انداز کو ملا کر ایسی دھنیں بنائیں جومشرق کے علاوہ مغرب والوں کے ذوق پر بھی پوری اتریں۔
بڑودا کے مہاراجا شیواجی راؤ گائیکواڑ نے بڑودا میں ایک موسیقی سکھانے کا ادارہ گیان شالا (یہ ادارہ آج بھی موجود ہے اب اس کومہاراجا شیواجی راؤ یونیورسٹیے ورودڑا کا نام دیا گیا ہے) کے نام سے بنایا تو اس کے لیئے اس کی نظر انتخاب مولابخش پر پڑی جو اس ادارے کا پہلا ناظم بنا۔
آج وہ بہت خوش تھا کیونکہ یہ تو اس کا ایک پرانا خواب تھا جس کو اس طرح تعبیر مل گئی تھی۔وہ ہمیشہ سے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کے خواب دیکھتا تھا۔اس نے اس ادارے کو مکمل توجہ دی موسیقی کے اسباق مرتب کیئے شاگردوں کو سکھانے کے لیے نئے اندازاختیار کیے،الغرض اس نے رات دن محنت کر کے اس ادارے کو موسیقی کے حوالے سے ایک مستند تربیت گاہ میں بدل دیا۔مہاراجا نے کھلے دل سے اس کا ساتھ دیا اور ہر موقعہ پر دامے درمے سخنے جیسے بھی ضرورت پڑی اس کے ساتھ کھڑا رہا۔اس کے پاس بڑودا میں مختلف دانشور، فنکار اور ذی علم لوگ آنے لگے جن میں ہر طرح کے لوگ جیسے شاعر، موسیقار اور فلسفی وغیرہ شامل تھے ۔اس کے گھر میں ان لوگوں کی وجہ سے ہر وقت چہل پہل رہتی تھی۔ 
سال 1896میں 63 برس کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔اس کی تدفین میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جن میں ہندواور مسلمان سب شامل تھے۔ وہ خود تو اپنے عقیدے پر قائم تھا مگر اس نے ہمیشہ اوروں کے عقائد کا بھی احترام کیا جس کی وجہ سے سب لوگ، کیا ہندو کیا مسلمان اس کی عزت کرتے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنایت خان
بڑودا کے رحمت خان کا تعلق مشائخ خاندان سے تھا۔ وہ پیر جمعہ شاہ کی اولاد سے تھا ۔ ان کے خاندان میں موسیقی کی بھی وراثت چلی آ رہی تھی اس کے دالد بہادر خان بھی گائک تھے اوراس نے بھی گانے کی تربیت لی تھی اور ایک مشہور گائک بن چکا تھا۔ اس کی شادی مولا بخش کی دختر خدیجہ بی بی سے ہوئی جس سے ان کے ہاں چار بیٹے پیدا ہوئے ، عنایت خان، کرامت خان، محبوب خان اورمشرف مولامیا خان۔ 
عنایت خان کی پیدائش بڑودا میں5 جولائی1882کو ہوئی۔وہ ذرا بڑا ہواتو اسے گیان شالا میں داخل کر دیا گیا جہاں کا منتظم اس کا نانا مولا بخش تھا۔ اس نے نانا کی نگرانی میں گانے اور مختلف روایتی ساز بجانے کی تربیت حاصل کی۔ اسے خصوصاََ وینا بجانے سے زیادہ دلچسپی تھی۔وہ اپنے بچپن میں ہی مختلف ساز بجانے کا ماہر ہو چکا تھا۔اس نے نو سال کی عمر میں مہاراجا بڑودا کے دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا جس سے مہاراجا بہت متاثر ہوا اور اس کے لیئے باقاعدہ وظیفہ جاری کر دیا۔ جب وہ چودہ سال کا تھا تو اس کے نانا مولا بخش کا انتقال ہو گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اس نے اسی گیان شالا میں استاد کی حیثیت سے شاگردوں کو تربیت دینی شروع کر دی۔ 
اس زمانے میں اہالیان ریاست مختلف فنون کی سرپرستی کرتے تھے اس سلسلے میں مقابلے بھی منعقد کیے جاتے تھے۔ عنایت نے مختلف ریاستوں میں ہونے والے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا،جن میں زیادہ تر اس نے جیتے۔اس نے بہت سے سونے کے تمغے حاصل کیے اس پر انعامات کی بارش ہوتی رہی۔ اس کی خصوصیت وینا پر دھروپد گانا تھا۔سولہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک مشہور درباری گائک بن چکا تھا اوراس کی وینا میں مہارت کی وجہ سے اسے سرسوتی وینا نوازکا خطاب مل چکا تھا۔ابھی وہ بیس سال کا تھا کہ اسے دکن کے دربار سے دعوت نامہ ملا۔ اس وقت بر صغیر کی ریاستوں میں سب سے بڑی ریاست دکن تھی۔ کشمیر سے بنگالہ تک اس ریاست کی برابری کرنے والی کوئی دوسری ریاست نہیں تھی۔ اتنی بڑی ریاست سے دعوت نامہ موصول ہوا تو نہ صرف وہ بلکہ مہاراجہ بڑودا بھی خوش ہو اٹھے خود انہوں نے نظام حیدرآباد کے دربار میں شرکت کی اجازت دی۔
وہ حیدرآباد دکن پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں برصغیر کے کونے کونے سے ماہر فن آئے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنے فن پر پورا بھروسا تھا اسی لیے جب انہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو دربار پر سناسٹا چھا گیا۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا جیسے سب کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں کسی کا سر ہلا تو پرندے اڑ جائیں گے۔
درباریوں نے اس سے قبل ایسا فن کبھی سنا بھی نہ تھا۔مقابلے کے اختتام پر اسے خلعت اور خطاب سے نوازا گیا۔
چونکہ اس کا تعلق ایک صوفی گھرانے سے تھا ، تو حسب روایت اس کے لیئے ایک روحانی استاد کی تلاش ہوئی جس کے ہاتھ پر وہ بیعت کر کے سلوک کی منازل طے کرسکے۔ یہ تلاش1903میں پوری ہوئی جب اس کی ملاقات سید محمد ابو ہاشم مدنی(متوفی 1907) سے ہوئی۔ ان کا تعلق چشتیہ سلسلے سے تھا۔ عنایت نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور چار سال تک ان کے ساتھ رہا۔تعلیم کا یہ سلسلہ سید ابو ہاشم کی وفات تک چلا۔ ابو ہاشم نے عنایت کو وصیت کی کہ ’’ عنایت میرے بیٹے مغرب کی طرف جاؤ،تمہیں اپنے موسیقی کے فن سے مشرق اور مغرب کو قریب لانا ہے، اللہ نے تمہیں ایک عظیم کام کے لیے منتخب کیا ہے جو تمہیں کرنا ہے۔تمہیں ہیجان پیدا نہیں کرناہے ،تصوف کا پیغام دنیا میں پھیلانا ہے
‘‘۔
ابو ہاشم کی موت کے دو سال بعد اس نے اپنے مرشد کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے مغرب کا رخ کیا۔ وہ اپنے بھائی محبوب خان اور چچیرے بھائی ممحمد علی خان کے ہمراہ امریکا پہنچا کچھ عرصے بعد اس کا چھوٹا بھائی مشرف بھی وہاں ان سے آ ملا۔ یہ سب موسیقی کے مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے تھے۔1912میں انہوں نے پہلے یورپ کا دورہ کیا پھر امریکا کی ریاستوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اس نے اس دوران نہ صرف موسیقی کا مظاہرہ کیا بلکہ اس نے اپنی تقاریر کے ذریعے بھی لوگوں کو متاثر کیا۔اس کے مریدوں میں اضافہ ہونے لگا۔ اسی سال اس کی ملاقات ایک نوجوان امریکی حسینہ Ora Ray Baker اورا رے بیکر سے ہوئی (اورا کا تعلق برطانیہ سے تھا مگر اس کی ساری زندگی امریکہ میں گزری تھی۔وہ امریکی یوگی اور فلسفی پیئر برنارڈ کی سوتیلی بہن تھی ، پیئر نے ہی اس کی پرورش کی تھی)جلد ہی ان میں دوستی
پیئر برنارڈ
اورا رے بیکر / پیرنی امینہ بیگم


ہوئی جو محبت میں ڈھل گئی۔عنایت سے شادی سے پہلے اورا نے اسلام قبول کر لیا اس کا نام امینہ بیگم رکھا گیا۔ سال 1913
میں ان کی شادی انجام پائی۔ چونکہ عنایت کاتعلق ایک صوفی گھرانے سے تھا اور اس کی اپنی نئی پہچان ایک نہ صرف ایک صوفی موسیقارکے طور پر ہو گئی تھی۔ بلکہ وہ ایک روحانی شخصیت ایک مرشد کے طور پر بھی جانا جاتا تھا، اب لوگ اسے حضرت عنایت خان کے نام سے اور اس کی بیوی کو پیرانی امینہ بیگم کے نام سے پکارتے تھے۔

سال 1913میں وہ اپنی بیوی کے ہمراہ روس پہنچا۔ وہاں کا ماحول اسے بہت پسند آیا ۔ اسے یوں لگ رہا 
سرگئی ٹالسٹائی
 تھا جیسے وہ ہندوستان میں ہی ہو۔وہاں اس کی ملاقات مشہور ادیب لیو ٹالسٹائی کے موسیقار بیٹے سرگئی ٹالسٹائی سے ہوئی۔
سرگئی اس کی شخصیت اور فن سے بہت متاثر ہوا۔ انہوں نے ساتھ مل کر ہندوستانی موسیقی پر کام کیا۔ سرگئی نے عنایت کی مدد سے ہندوستانی موسیقی پر تحقیق بھی کی اور انہوں نے مل کر کالی داس کے لکھے ہوئے مشہور ناول شکنتلا کو بیلے ڈانس کی صورت میں پیش کیا۔یہاں اس کی ملاقات روسی موسیقار الیگزینڈر سکرابین سے بھی ہوئی جو سرگئی کے ساتھ کام کر رہا تھا۔۔ عنایت کی دعوت پر سرگئی نے اس کی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔عنایت نے سرگئی کو تصوف کے حوالے سے روس میں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔اسی سال میں ان کے ہاں پہلی بیٹی نورالنساء کی ولادت ہوئی۔ اگلے سال 1914میں پہلی عالمی جنگ چھڑنے سے کچھ دن قبل وہ فرانس سے ہوتے  ہوئے انگلستان لوٹ آیا اور بلومسبری میں ریائش اختیار کی۔
یچھے دائیں سے مشرف مولا میاں، محبوب خان۔ آگے بائیں سے۔ نور، خیرالنساء، ءنایت خان۔ ہدایت، امینہ بیگم اور ولایت۔
جنگ28 جولائی1914سے11نومبر 1918تک لڑی گئی۔ عنایت اس دوران انگلستان میں ہی رہا۔ اس دوران اس کے ہاں دو بیٹے ولایت خان ، ہدایت خان اور ایک بیٹی خیرالنساء پیدا ہوئی۔ عنایت ایک ادارہ یونیورسل صوفی ازم کے نام سے بنا چکا تھا۔ اب وہ اس کی ترقی و ترویج کے لیئے رات دن مصروف رہنے لگا۔ اس کے بے شمار شاگرد یورپ بھر میں پھیلے ہوئے تھے ،جوہ اس کے ساتھ کام کر رہے تھے اور اپنے اپنے ملک میں اس ادارے کے مراکز کھولتے جا رہے تھے۔ اب اس حوالے سے اس کی مصروفیات اتنی بڑھ چکی تھیں کہ موسیقی کے لیئے وقت نکالنا مشکل ہو رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ موسیقی کے بجائے ادارے کو مکمل وقت دیا جائے سو اس نے موسیقی کے پروگرام ختم کر دیئے اور اپنے ادارے کے لیئے کام کرنے لگا۔1920 میں عنایت اپنے خاندان کے ہمراہ فرانس پہنچا ، پہلے وہ Wissous ویسو نامی قصبہ میں رہائش پذیر رہا ،بعد ازاں اسکو صوفی تحریک کی ایک مخیر شخصیت نے Suresnes سورین میں ایک گھر بطور تحفہ پیش کیا تو عنایت اس میں سکونت پذیر ہو گیا ۔
یہ گھر فضل منزل کے نام سے مشہور ہے۔ ویسو میں اس نے پہلی بار ایک اسکول کی ابتداء کی تھی۔
فضل منزل پیرس
سال 1923میں اس کی تقاریر پر مشتمل چودہ کتابیں صوفی میسج کے نام سے شائع کی گئیں۔ یہ کتابیں اس کے شاگردوں نے مرتب کی تھیں۔اب اس نے یورپ بھر کے دورے شرووع کیے وہ بھائی چارے اورامن و محبت کا درس دیتا تھا۔ اس نے سوئٹزرلیند، ہالینڈ، یلجیٗم، اٹلی کے علاوہ سکینڈینیویا کے ممالک کے بھی دورے کیئے۔ سوئٹزرلینڈ میں اس نے یونیورسل صوفی ازم کا صدر دفتر بنایا۔ان سب مصروفیات نے اسے بہت تھکا دیا تھا،اس کی صحت گرتی جا رہی تھی کمزوری میں اضافہ ہو رہا تھاکہ1926 میں اسے وطن کی یاد نے ستایا تو دسمبر کے مہینے میں وہ اپنے سیکریٹری کے ساتھ عازم ہند ہوا ۔ہندوستان میں پہلے وہ دہلی پہنچاکچھ دن قیام کے بعد 1927 کی ابتداء میں اس نے اجمیر کا رخ کیا۔اجمیر میں اس نے خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دی اور قیام کیا۔اس دوران اسے سردی لگ گئی جو خراب ہو کر نمونیا میں بدل گئی، علاج ہوتا رہا مگر اب اس کا آخری وقت آ گیا تھا۔فروری میں وہ دہلی لوٹ آیا جہاں ۵ فروری 1927 کو اس نے آخری سانس لی۔ عنایت کو درگاہ نظام الدین اولیا کے مغرب میں دفن کیا گیا۔ بعد میں وہاں مقبرہ بنا دیا گیا جہاں آج بھی دور دور سے لوگ آتے ہیں۔
قبر عنایت خان اجمیر ہمدوستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنایت خان کی بڑی بیٹی نورالنساء کی پیدائش2جنوری 1914کو ہوئی جب عنایت ماسکو میں تھا۔ پہلی عالمی
 جنگ سے قبل ہی وہ انگلستان لوٹ آئے اور بلومسبری میں رہنے لگے۔ نور کو نوٹنگھم ہل میں نرسری میں داخل کروا دیا گیا ۔1920میں وہ فرانس منتقل ہو گئے۔ جہاں نور نے تعلیم حاصل کی ۔، مگر ابھی وہ تیرہ سال کی تھی کہ ان پر قیامت گزر گئی۔ ہندوستان سے عنایت کی موت کی اطلاع ملی تو ان پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ نور نے اس موقع پر ہمت سے کام لیا اور اپنا غم چھپاتے ہوئے ماں اور بہن بھائیوں کو تسلی دیتی رہی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنے خاندان کی کفالت کرے گی۔ وہ ایک شرمیلی ، کم گو،حساس اور خوابوں میں رہنے والی لڑکی تھی۔ 
  بچوں child psychologyسوربون یونیورسٹی پیرس سے Sorbonne اس نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور
کی نفسیات کی ڈگری حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی خاندانی روایت کو نباہتے ہوئے پیرس کنزرویٹری میں داخلہ لیا جہاں نادیہ بولونژے موسیقی سکھاتی تھی۔ اس نے بربط، ستار اور پیانو بجانا سیکھا ۔وہ اسٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ بھی کرنے لگی۔ اس نے بچوں کے لیئے نظمیں اور کہانیاں بھی لکھنی شروع کیں جو بچوں کے رسالوں میں چھپنے کے علاوہ پیرس ریڈیو سے بھی پیش کی جاتی تھیں۔ 1939میں اس کی اصلاحی کہانیوں کی کتاب 20 جٹاکا کہانیاں کے عنوان سے چھاپی گئی اس میں اس نے گوتم بدھ کی روایتی کہانیوں میں سے 20کہانیوں 
کا انتخاب کیا تھا۔
نور عنایت خان وینا کے ساتھ
اس دوران ۱ ستمبر1939کا تاریک دن آ گیا اور یورپ پر جنگ کے بادل چھانے لگے۔ دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ 1940کے مئی میں جرمنی نے فرانس پر حملہ کر دیا اور کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے نور کے خاندان نے انگلستان کا رخ کرنے کا سوچا۔ نور اور اس کے بھائی ولایت نے آپس میں مشورہ کیا؛ ولایت نے کہا ’’نور جنگ کے بادل فرانس پر چھاگئے ہیں کیا ہم یونہی بیٹھے رہیں گے‘‘۔
 مگر بھائی ہم کیاکر سکتے ہیں ہم تو صوفی ہیں ہمارا ایما ن عدم تشدد پر ہے‘‘۔‘‘
مانا کہ ہم صوفی ہیں اور عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں مگر یہ بھی صحیح نہیں کہ ہم یہاں بیٹھے رہیں اور غیروں کی غلامی قبول کر لیں۔ اس سے پہلے کہ جرمن پیرس پر قبضہ کر لیں ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہییے‘‘۔
 ہم کہاں جائیں گے‘‘؟’’
ہم انگلستان جائیں گے اوروہاں پہنچ کر حکومت کو اپنی خدمات پیش کر دیں گے اوراپنی بساط بھر اس جنگ میں حصہ لیں گے۔ہم فاشزم اور نازی ازم کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں گے۔کیونکہ اس وقت ملک کو ہماری ضرورت ہے اور ہمیں کسی بھی حال میں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے‘‘۔
 ٹھیک ہے بھائی میں آپ کے ساتھ ہوں، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اس وقت ہمیں ایساہی کرنا چاہیے‘‘ ۔’’
ان کا پیرس چھوڑنے کا فیصلہ بہت سائب تھا کیونکہ پیرس کے اطراف میں صرف چھ ہفتے کی جنگ کے بعد پیرس کو ایک معاہدے کے تحت بنا ایک بھی گولی چلائے جرمنی کے حوالے کر دیا گیا۔ان دنوں فرانس میں نئے نائب وزیر اعظم چوراسی سالہ مارشل ہینری پیتین نے حکومت سنبھالی تھی۔وہ ایک سابق فوجی تھا اور پہلی جنگ عظیم میں حصہ لے چکا تھا۔اسے ایک جنگی ہیرو مانا جاتا تھا۔اسی لیئے اسے لایا گیا کہ قوم اور فوج کا گرتا ہوا حوصلہ بلند ہو۔مگر اس نے 22جون1940کو جرمنی کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے اور فوریسٹ اوف کومپین کے مقام پر جنگ بندی کی معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے بعدپیرس سمیت آدھے سے زیادہ فرانس پر جرمنی کا قبضہ تسلیم کر لیا گیا۔ یہ فوریسٹ اوف کومپین وہی جگہ تھی جہاں1918میں جنگ عظیم اول کے دوران جرمنی نے فرانس سے ہار مانی تھی گویا آج جرمنی نے اپنی اس سبکی کا بدلہ لے لیا تھا۔
جب نور کا خاندان سفر کی تیاریوں میں مصروف تھا اس وقت نور کی آنکھوں میں آنسو تھے ، اسے آج اپنے والد کی بہت یاد آ رہی تھی جس نے زندگی کا بڑا حصہ یورپ روس اور امیریکہ میں گزار دیا مگر اپنی آخری سانس اپنے ملک میں اپنی فضاؤں میں لی تھی۔اسے اپنا گھر فضل منزل چھوڑنے کا ازحد صدمہ تھا یہ وہ گھر تھاجہاں اس نے بچپن سے جوانی تک کا سفر طے کیا تھا۔ اس گھر کے ہر کونے میں اس کے والد کی یادیں بکھری ہوئی تھیں۔ اس کی لائبریری اس کے ساز، موسیقی کا کمرہ مراقبے والا حصہ غرض کون سی جگہ تھی جہاں اسے اپنے والد کی یاد نہیں آتی تھی۔ ہر طرف اس کی سانسوں کی اس کے پیار کی خوشبو بکھری ہوئی تھی۔ 

نور اپنے والد اور والدہ کے ساتھ
وہ ایک بڑی قلمکار اور موسیقار بننا چاہتی تھی مگر فرانس کی ہار نے اس کی زندگی کا دھارا تبدیل کر دیا۔ پیرس میں وہ بچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی کی منزل میں داخل ہوئی تھی اس خوبصورت شہر سے جس کی ہواؤں کی خوشبو اب بارود کی بو میں تبدیل ہو رہی تھی جس کی رومان پرور فضاؤں میں خوف و دہشت پھنکار رہی تھی۔ اس شہر سے اسے بہت پیار تھا وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتی تھی مگر مجبوراََ چھوڑنا پڑ رہا تھا۔
نور کا خاندان فرانس کے ساحلی شہر  بوغدو پہنچے وہاں سے سمندری راستے کے ذریعے انگلستان کے علاقے  فولموتھ کورنوول میں 22جون 1940کوجہاز سے اترے ۔لندن پہنچ کر وہ دنگ رہ گئے کیونکہ یہ وہ ان کے بچپن والا خوبصورت لندن نہیں تھا یہ تو ایک اجڑا دیار تھا ہر طرف خوف کے سائے منڈلا رہے تھے ہوائی حملوں کی وجہ سے ہونے والی تباہیاں جگہ جگہ بکھری اپنی داستان الم سنا رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ شاید لندن اب زیادہ عرصہ تک مزاحمت نہیں کر سکے گا۔ برطانیہ ٹکڑے ہو ٹکڑے جائے گا۔وہ لوگ جو ہر وقت ہنستے مسکراتے مختلف تفریحات میں مشغول رہتے تھے اب ان کی آنکھوں میں وحشت اور ویرانیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ جہاں نغمے گونجتے تھے وہاں اب بموں کے دھماکے گونج رہے تھے۔ جہاں بے فکرے رقص کرتے تھے وہاں اب اجل رقص کر رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ لندن کے باسی جینا بھول چکے ہیں اور موت کا انتظار کر رہے ہیں، موت جو کبھی بھی کسی بھی وقت اچانک نازی ہوائی جہازوں کی صورت میں نازل ہوجاتی تھی اور ان پر بموں کی برسات کر دیتی تھی۔ لندن پر مسلسل چھہترراتوں تک بمباری ہوتی رہی ۔
جنگ زدہ تباہ حال لندن 
لندن کے باسی زیر زمین ٹیوب اسٹیشن میں پناہ لیے ہوئے

لندن کے باسی سائرن بجتے ہی خوف کے عالم میں گھروں سے نکلتے اور زیر زمین ریلوے اسٹیشنز میں گھس کر پناہ لیتے تھے۔نور پر اپنے والد کی تعلیمات کا گہرا اثر تھا جو عدم تشدد کا حامی تھا۔ وہ نازیوں کے سخت خلاف تھی اس لیئے اس موقعے پر نور اور اس کے بھائی ولایت نے فیصلہ کیا تھاکہ وہ نازیوں کے جبر و استبداد کے خلاف کام کریں گے۔ ان کی خواہش تھی کہ ہندوستانی بھی اس جنگ میں حصہ لیں اور امتیازی حیثیت حاصل کریں۔ اگر چند اشخاص بھی ایسا کر لیں اور متحدہ افواج کی طرف سے بہادری کا مظاہرہ کر کے کوئی مقام حاصل کر لیں تو اس سے یقیناََ انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان کی خلیج کم ہو جائے گی۔ان دنوں برطانیہ کو فوجیوں کی سخت ضرورت تھی اس نے اپنے مقبوضات سے بھی فوجیں منگوا لی تھیں اور لندن میں بھی دیواروں پر فوجی بھرتی کی ترغیب کے لیئے اشتہارات لگائے ہوئے تھے۔ولایت فوج میں شامل ہو گیا۔ نور نے بھی فوج میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کیا اور درخواست بھیج دی۔
مگر جو جواب آیا وہ اس لیئے غیر متوقع تھا اس کی درخواست کو رد کر دیا گیا تھا ، وجوہات یہ لکھی تھیں گئی کہ ایک، وہ فرانسیسی شہری ہے ۔ دو، اس کی پیدائش موسکو کی ہے۔ اور تین اس کا نام نور عنایت خان ،َ ہندوستانی نام ہے۔جہاں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔اسے بہت افسوس ہوا کچھ دیر وہ افسردہ سی بیٹھی رہی پھر اس کے اندر سے غصے کی ایک لہر اٹھی تو اس نے فوراَایک نئے عزم سے اٹھ کر خط لکھنا شروع کیا۔اس نے لکھا کہ ’’ میں ایک برطانوی ماں کی بیٹی ہوں میرے پاس برطانوی حکومت کا جاری کردہ برٹش پروٹیکٹڈ پرسن کا پاسپورٹ ہے تو میں برطانوی کیسے نہیں ہوں؟ میں برطانوی ہوں اور اپنے وطن کے لیئے کچھ کرنا چاہتی ہوں مجھے موقع دیجئے ‘‘۔ اس نے یہ خط ڈاک کے حوالے کر دیا۔ چند ہی روز بعد اسے جواب موصول ہوا جس کے ساتھ انٹرویو لیٹر بھی تھا۔
ان دنوں ہندوستان میں برطانیہ کے خلاف تحریک زوروں پر تھی تمام بڑے لیڈروں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ وہ ان حالات سے واقف تھی۔ اسی لیئے دوران انٹرویو اس سے سوال کیا گیا کہ کیا تم ان ہندوستانی لیڈروں کے آزادی کے مطالبے سے متفق ہو؟
نور نے بڑی متانت سے بنا ہچکچائے جواب دیاکہ ۔’’ اس وقت ہم ایک مشکل وقت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اس وقت ہمیں فاشزم کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔ میں اس وقت پوری طرح برطانیہ کا ساتھ دوں گی ،ہاں جب یہ جنگ ختم ہو جائے گی تو میری حمایت بھی ان کے ساتھ ہو گی جو ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں
۔
انٹرویو کرنے والے اس لڑکی سے ایسے جواب کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لیئے وہ چند لمحوں کے لیے سکتے میں آ گئے پھر انہوں نے اس کی سچائی سے متاثر ہو کر اسے تقرر نامہ دے دیا۔اب اس نے اپنا نام بدل لیا وہ نور عنایت خان سے نورا بیکر بن گئی۔جب پہلی بار اس نے یونیفورم پہن کر خود کو آئینے میں دیکھا تو اسے اچھا لگا اوراسے لگا کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ اب نور وہ گھریلو لڑکی نہیں رہی وہ اب آزاد فضاؤں میں اڑنے والا ایک پرندہ بن چکی ہے ۔ اب وہ حضرت عنایت خان کی بیٹی پیرزادی نور نہیں رہی تھی وہ ایک فضائیہ کی اوفیسر تھی۔ اب اسے نورخان نہیں ، نورابیکر کی حیثیت سے زندگی گزارنی ہو گی۔
نور خان وردی میں
اس نے 19 نومبر1940 میں Women's Auxiliary Air Force (WAAF) ویمن اوگزیلری ائر فورس میں شمولیت اختیا کر لی۔ اسے ایک دوسرے درجہ کی خاتون معاون کے طور پر وائرلیس آپریٹر کی تربیت کے لیئے بھیج دیا گیا۔اس کو دوسری چند لڑکیوں کے ساتھ وائرلیس استعمال کرنے کی تربیت دی گئی اور مورس کوڈ سکھایا گیا۔ نور کو اس میں بہت دلچسپی محسوس ہوئی اس نے خوب دل لگا کر سیکھا۔ اور بہت کم عرصے میں مہارت حاصل کر لی۔ان دنوں اس نے اپنی ماں کو خط لکھاجس میں اس نے اپنی تمام دن کی مصروفیات کے بارے میں لکھا اور لکھا کہ ’’ اگر ہماری طرح کے اور بھی ہندوستانی اس موقع پر برطانیہ کے لیئے کام کریں ان کے ہاتھ مضبوط کریں ان کی فوج میں بھرتی ہو جائیں تو جنگ کے بعد برطانیہ کو ہمیں آزادی دینی ہی پڑے گی، اگر آج ابو ہوتے تو ضرور میری بات سے اتفاق کرتے۔ ‘‘ تربیت کے بعد اسے بمبار ٹریننگ اسکول میں تعینات کر دیا گیا جہاں وہ اپنے کام سے بے زار ہوگئی، وہ محض آفس میں بیٹھ کر کام نہیں کرنا چاہتی تھی وہ ملک کے لیئے کچھ کرنا چاہتی تھی،کوئی بڑا کام، کچھ ایسا جو یادگار ہو، ایسا کارنامہ جس سے اس کا نام سنہری حرفوں میں لکھا جائے۔ اس نے جون1941 کو کمیشن کے لیئے درخواست دی۔ اسے ترقی دے کر سیکشن آفیسر بنا دیا گیا۔
نور کا آرمی سروس شناختی کارڈ
کچھ عرصے بعد نورکو اسپیشل آپریشنز ایگزیکوٹیو کے ایف یعنی فرانس سیکشن کے لیئے منتخب کر لیا گیا۔یہ ایک برطانوی خفیہ ادارہ تھا ، جو ۱ جولائی 1940کو قائم کیا گیا تھا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ یورپ میں نازیوں کے بڑھتے قدموں کو روکا جائے۔ ان ممالک کی مدد کی جائے جن پر جرمنی نے قبضہ کر لیا تھا ۔یہ ایک طرح کی پیشبندی تھی کہ ان مقبوضہ ممالک میں مزاحمتی تحاریک بنائی جائیں انہیں تربیت ، اسلحہ اور مدد فراہم کی جائے تاکہ جب برطانیہ اور امریکہ مل کر بڑا حملہ کریں تو وہاں پہلے سے ہی زیرزمین حریت پسند موجود ہوں جو اندر سے تخریبی کارروائیاں کر کے ان کی مدد کریں۔ 
نور کو جب ایس ای او نے بلایا تو اس سے پوچھا ’’کیا تم پیرس میں خفیہ جاسوس کے طور پر کام کرنا پسند کرو گی
‘‘۔
 جی ضرور کیوں نہیں‘‘۔ نور نے اثبات میں جواب دینے میں ایک منٹ بھی نہ لگایا۔’’
وہ بہت خوش تھی۔ مگر انٹرویور نے اسے ذرا تفصیل سے سمجھایا ۔’’ تم اچھی طرح سوچ لو یہ بہت خطرناک مہم ہو گی۔ تم کو چھپ کر کام کرنا ہو گا کوئی یونیفورم تمہارے بدن پر نہیں ہو گا ۔،اور پکڑے جانے کی صورت میں کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکے گا۔اس صورت میں صرف تشدد اور گولی ہی تمہارا مقدر ہو گا 

یونکہ جاسوسوں پر جنیوا سمجھوتے کا اطلاق بھی نہیں ہوتا‘‘۔ 
 جی میں سمجھتی ہوں، مگر اس وقت ملک کو میری ضرورت ہے اگر مجھے اپنی جان بھی قربان کرنی پڑی تو میں پیچھے نہیں ہٹوں گی‘‘۔ اس نے عزم سے کہا۔ اس وقت اس کی خوبصورت آنکھوں میں چٹان کی سی سختی نظر آ رہی تھی۔ اسے منتخب کر لیا گیا۔
فروری1943 میں اسے وزارت ہوابازی کی ڈائرکٹوریٹ آف ائر انٹیلجنس کے فرسٹ ایڈ نرسنگ یومینری میں تعینات کر دیا گیا۔ اسے وانبورو مینر بھیج دیا گیا جو گلفورڈ سرے کے قریب واقع ایک تربیت گاہ تھی جہاں سیکرٹ ایجنٹس کو تربیت دی جاتی تھی۔یہاں سے تربیت کے بعد اسے چند اور مراکز پر بھی مزید تربیت کے لیئے بھیجا گیا جن میں ونٹرفولڈ ہاؤس، بورمانس اور تھیم پارک بھی شامل تھے ۔اسے پیغامات کی ترسیل کے لیئے کوڈورڈز کی تربیت دی گئی یہ ایک نئی زبان تھی جو ان کو خود ہی ترتیب دینی تھی اس میں ان کو پیغامات ڈیکوڈ کرنے کے لیئے کوڈ کی بنانی پڑتی تھی اس نے اپنی لکھی ہوئی ایک نظم کو کوڈ کی بنایا۔اس کے علاوہ انہیں جسمانی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ جس میں مختلف ہتھیار چلانے کی تربیت بھی شامل تھی۔ ان کا نظام کچھ یوں تھاکہ یہاں سے تربیت مکمل کرکے پاس ہونے والی لڑکیوں کو اسکاٹ لینڈ بھیجا جاتا تھا جہاں انہیں پیراملٹری کی تربیت دی جاتی تھی۔یہاں انہیں سکھایا جاتا تھا کہ وہ مشکل حالات میں کیسے زندہ رہیں۔ یہ ایک طرح سے کمانڈوز جیسی تربیت تھی۔انہیں خالی ہاتھ لڑنے کی تربیت دی جاتی، بغیر چابی کے تالا کھولنا سکھایا جاتا۔ جسمانی مضبوطی کے لیئے ورزشیں کروائی جاتیں لمبی دوڑ کی تربیت دی جاتی۔ اس دوران ان کو کئی بار نقلی تفتیش سے گزارا جاتا تھا تاکہ انہیں پتہ چلے کہ کسی اور ملک میں جا کر ایسے کام کرنا کتنا مشکل ہے ۔اس میں دیکھا جاتا تھا کہ وہ اس کا سامنا کیسے کرتی ہیں۔ نور کے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا، وہ دن بھر کی تربیت کے بعد تھک کر سو رہی ہوتی کہ اچانک جرمن وردی میں ملبوس نقلی کستاپو آفیسر اس کے کمرے پر ہلہ بول دیتے اسے نیند سے اٹھا کر سختی سے پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کر دیتے۔
نور اس معاملے میں کچھ کمزور ثابت ہوئی کیونکہ وہ ایسے مواقع پر گھبرا جاتی تھی اوررونے لگتی تھی۔جو لوگ گستاپو کے روپ میں ہوتے غصہ ہو کر اسے روتا چھوڑ جاتے۔ اکثر وہ سوچتی تھی کہ اگر کبھی سچ میں ایسا ہوا تو کیا میں اس صورت ھال کا سامنا کر پاؤں گی۔؟یہ تربیت مکمل کر کے انہیں مانچسٹر کے ریلوے ائرپورٹ لے جایا جاتا تھا جہاں انہیں پیراشوٹ سے کودنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ اس کے بعد آخری مرحلے میں انہیں وائرلیس کی اضافی تربیت دی جاتی تھی۔ تب کہیں جا کر خفیہ ایجنٹ نامزد کر دیاجاتا تھا۔اپنی کمزوری کاعلم ہونے کی وجہ سے نور کافی مایوس تھی اور اسے لگتا تھا وہ فیل ہو جائے گی۔
دوسری طرف اس کے اساتذہ بھی اس سے زیادہ خوش نہیں تھے انہوں نے ملی جلی رپورٹس دی تھیں۔جن میں ایک طرف یہ لکھا گیا تھا کہ وہ قابل تعریف ہے، بہت فرض شناس ہے، مگر بہت جذباتی اور تصورات میں کھوئی رہنے والی،بہت زیادہ متلون مزاج اور پھوہڑ ہے۔ وہ اس مہم کے لیئے موزوں نہیں ہے، کسی نے لکھا وہ ہتھیاروں سے ڈرتی ہے خصوصاََ آتشیں اسلحے سے اور ضرورت پڑنے پر وہ کسی پر گولی نہیں چلا سکے گی۔اس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ اپنے صوفی پس منظر کی وجہ سے وہ عدم تشدد کی قائل تھی اور کسی کی جان لینا اس کے لیئے انتہائی مشکل کام تھا۔ اس کے اساتذہ کے خیال میں وہ ایک ڈرپوک اور کمزور اعصاب کی لڑکی تھی جسے اتنی بڑی ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی تھی۔ 
اپنے بارے میں اساتذہ کے تبصرے اور آراء سن کر وہ بہت مایوس تھی وہ مانتی تھی اس میں یہ خامیاں ہیں مگر وہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ وہ یہ کام کر سکتی ہے۔اس کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اسے اس کے والد نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی تھی اور جھوٹ سے نفرت سکھائی تھی مگر یہاں اسے جو کام ملا تھا اس میں ہر وقت جھوٹ ہی بولنا تھا یہاں تک کہ جھوٹا نام جھوٹی شناخت جعلی کاغذات مگر اس نے سوچا کہ کسی ارفع مقصد کے لیئے جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں ، اگر میرا ملک میرا فرض مجھ سے یہ قربانی مانگتا ہے تو میں یہ بھی کر گزروں گی۔
ادارے کے بڑے اسے میدان عمل میں بھیجنے سے ہچکچا رہے تھے ، انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ اچھی کارکردگی دکھا بھی پائے گی۔مگر اس کے ایک استاد لیو مارکس نے اسے ایک موقع اوردینے کا فیصلہ کیا ۔ 
اس نے ایک دن نور کو اکیلے میں بلایااور اسے ڈحائی سوحروف کا ایک کوڈ پیغام بنانے کے لیئے کہا۔وہ اس وقت بہت اعصاب زدہ ہو رہی تھی، حالانکہ اس نے پیغام جلدی لکھ لیا تھا مگر گھبراہٹ کی بنا پر بار بار اسے دیکھ اور لکھ رہی تھی، بالآخر اس نے کانپتے ہاتھوں سے لکھا ہوا کاغذ لیو کی طرف بڑھایا ۔لیو نے کاغذ لے کر دیکھا اور نہایت ٹھنڈے لہجے میں اس کی غلطیوں کی نشاندہی کی ۔وہ ویسے بھی ایک ٹھنڈے مزاج کااور مشفق قسم کاانسان تھا۔اس نے نور سے نہایت شفقت سے بات کی، کیونکہ وہ نور کے ماضی سے واقف تھا کہ وہ کس گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ گھر میں اس کی تربیت کیسے ہوئی ہے۔ اس نے انہی خطوط پر اس کو سمجھایا ۔ وہ اوروں سے بھی کہتا تھا کہ اس کے ساتھ نرمی سے کام لیں، سخت رویہ نہ اپنائیں۔ لیو نے نور کی کتاب جٹاکا کہانیاں سے بندروں کی ایک کہانی منتخب کر کے اسے سنائی جو کچھ یوں تھی کہ بندروں کا قبیلہ پہاڑ کی دو چوٹیوں کے درمیان پھنس جاتا ہے تو ایسے میں سرداربندر ان چوٹیوں کے درمیان لیٹ کر اپنے جسم کا پل بنا دیتا ہے جس پر سے اسی ہزار بندر بخیر و عافیت گزر جاتے ہیں اس طرح وہ اپنی جان دے کر پورے قبیلے کو بچا لیتا ہے۔ لیو نے کہا یوں سمجھو یہ کوڈز بھی پل ہیں اگر تم نے غلط کوڈ بھیجے تو تم کسی کی جان خطرے میں ڈال دو گی۔ تمہیں وہ بندر بننا پڑے گا جو اپنی قربانی دے کر دوسروں کو بچا لیتا ہے۔ یہ بات نور کے دل میں اتر گئی۔ اس نے اپنے دل میں کہا کہ’’ میں کبھی کوئی غلط کوڈ نہیں بھیجوں گی میں اپنا کام پوری توجہ اور ذمہ داری سے کروں گی۔‘‘
باوجود اس کے کہ ابھی ایک سیکرٹ ایجنٹ کے طور پر اس کی تربیت نامکمل تھی مگر اس کی وائر لیس کی مہارت اور فرانسیسی زبان روانی سے بولنے کی بنا پرادارے نے اسے آزمانے کا فیصلہ کیا۔چونکہ جنگ زوروں پر تھی اور ماہر سیکرٹ ایجنٹس کی کمی تھی اس لیئے یہ فیصلہ ہوا کہ اسے خفیہ مہم پر مقبوضہ فرانس بھیج دیا جائے جہاں نازی قابض تھے۔اسے ایک جعلی شناختJeanne-Marie Regnier ژون میری رینیئر دی گئی ۔ اس کا وائرلیس شناختی کوڈ نرس تھا جبکہ اسے بطور خفیہ ایجنٹ میڈلین کا کوڈ نام دیا گیا تھا۔ نور بہت خوش تھی وہ ایک بار پھر پیرس جا رہی تھی،
پیرس جہاں اس نے زندگی کے قیمتی ماہ و سال گزارے تھے جہاں اس کا بچپن گزرا جہاں اس نے جوانی کی بہار دیکھی اور جسے بھرے دل کے ساتھ مجبوراََ چھوڑ کر آئی تھی ۔ان کے جانے سے پہلے بی بی سی فرنچ سروس نے کوڈڈ پیغام کے ذریعے پیرس میں موجود ایجنٹس کوان کی آمد سے آگاہ کر دیا۔ روانگی سے قبل اس نے اپنے بھائی کو ایک خط لکھا جس میں اسے اپنی نئی ذمہ داریوں کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ۔’’میں جا رہی ہوں، میرے ساتھ کیا ہو میں نہیں جانتی مگرامید رکھتی ہوں کہ شاید ہم آئندہ کبھی کسی جگہ مل سکیں
‘‘۔
لیو مارکس نے چلتے وقتَ نور کو ایک سونے کا بناچھوٹا شیشہ دیا تھا جو ان دنوں اونچے طبقے کی عورتیں اپنے پرس میں رکھتی تھیں۔ شاید اس قیمتی تحفے کے پیچھے یہ مقصد ہو کہ اگر نور کسی مشکل میں گرفتار ہو جائے تو اسے بیچ کر کام چلا سکے۔

16جون 1943کو نوردو دیگر خواتین ایجنٹس کے ساتھ اپنی خفیہ مہم پر روانہ ہو گئی ۔اس کو ژون میری رینیئر کے فرضی نام سے کاغذات دیئے گئے تھے۔اسے رات کے وقت شمالی فرانس میں انگرس میں اتارا گیا۔اسے صرف ایک پستول کچھ فرانکس اور راستے کا ایک نقشہ رکھنے کی اجازت تھی۔ مگر چونکہ وہ آتشیں اسلحہ 
پسند نہیں کرتی تھی، اوراپنے ہاتھوں سے کسی کی جان نہیں لینا چاہتی تھی ،اس لئے اس نے اپنا پستول لندن
نور کا پستول جو وہ لندن میں چھوڑ گئی تھی اب میوزیم میں ہے
میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ وہ ایک خاص جہاز سے روانہ ہوئے جو لائسٹر کہلاتا تھا یہ جہاز چاندنی راتوں میں خفیہ پرواز کرتا تھا کیونکہ چاندنی رات میں پائلٹ اس مقام کو صاف دیکھ سکتا تھا جہاں جہاز اترتا تھا۔ وہاں چند ایجنٹس کھڑے رہتے تھے ان کے پاس ٹارچز ہوتی تھیں جن سے وہ جہاز کوروشنی کے سگنلز دیتے تھے۔ ان سگنلز کو دیکھ کر پائلٹ صحیح مقام تک پہنچ کر پٹی کو دیکھ لیتا تھا اس طرح جہاز اتر جاتا تھا۔یہ خاصا خطرناک کام تھا ،مگر مہم کو خفیہ رکھنے کے لیئے ضروری بھی تھا۔
جیسے ہی جہاز اترا تو وہاں موجود ایجنٹس نے انہیں سائیکلیں دے کر کہا نقشے کے مطابق فوراََ نکل جاؤ۔ اسے ایک فرانسیسی ایجنٹ ہونری دیریتور سے ملنا تھا۔
وہاں سے وہ اپنی دو ساتھی خواتین ایجنٹس ڈیانا روڈین کوڈ پولیٹ، چیپلن اور سیسلی لیفورٹ کوڈ ایلس ، ٹیچر کے ساتھ پیرس پہنچی، جہاں وہ الگ ہو گئیں۔اسے ایک پتہ دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا اس پتے پر تمہیں ایک خاتون رینی سے ملنا ہے۔
مطلوبہ دروازے پر پہنچ کر نور نے گھنٹی بجائی تو اندر سے ایک جوان آدمی نکلا۔ ’’جی محترمہ آپ کو کس سے ملنا ہے‘‘؟
’’ مجھے رینی سے ملنا ہے، کیا وہ موجود ہے؟۔‘‘
’’مگر یہاں تو میں رہتا ہوں کوئی رینی نہیں رہتی۔‘‘
 کیا : کیا یہ ، یہ پتہ نہیں ہے۔‘‘ اس نے پتہ بتاتے ہوئے پوچھا۔’’
’’ پتہ تو یہی ہے مگر یہاں کوئی رینی نہیں رہتی ۔‘‘
‘‘دفعتاََ اندر سے ایک نسوانی آواز آئی’’ گیری ۔۔ کون ہے۔
اس کے ساتھ ہی دروازے پر ایک خاتون نمودار ہوئی۔
’’ جی میرا نام میڈیلین ہے مجھے رینی سے ملنا تھا مگر یہ کہہ رہے ہیں یہاں کوئی رینی نہیں رہتی۔‘‘
اس خاتون نے ذرا غصے سے نوجوان کو دیکھتے ہوئے ڈانٹا۔’’گیری ۔ تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آؤ گے۔‘‘ پھر نور سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی۔۔ ’’میڈلین ۔ میرا ہی نام رینی ہے اور یہ میرا شرارتی بھائی گیری ہے، اس کی مذاق کرنے کی عادت ہے اسی لیئے تمہیں تنگ کر رہا تھا۔ آؤ اندر آ جاؤ تم صحیح جگہ پہنچی ہو ہم تمہارا انتظار کر رہے تھے
‘‘۔
نور ان کے ساتھ اندر آ گئی۔
یہ دونوں بھائی بہن مزاحمتی تنظیم کے رکن تھے۔ دراصل فرانس میں ہتھیار ڈالنے کی قرار داد پر دستخط ہونے کے فوری بعدمزاحمت کا آغاز ہو گیا تھا۔ ابتداء میں کچھ لوگ انفرادی طور پر احتجاج کرتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہاں مختلف تنظیمیں بن گئی تھیں جو جرمن قبضے کے خلاف اپنے اپنے طور پر مزاحمت کر رہی تھیں۔ ان میں سے چھوٹی تنظیمیں کتابچے ،اور اخبارچھاپ کربانٹتے تھے اور لوگوں کو مزاحمت پر ابھارتے تھے ۔ رفتہ رفتہ یہ مزاحمت ایک تحریک کی صورت اختیار کرنے لگی۔اس سلسلے میں برٹش براڈ کاسٹینگ ایجنسی یا بی بی سی نے بہت فعال کردار ادا کیا۔ کچھ عرصے بعد امریکہ بھی جرمنی کے خلاف فرانس کی مدد کیے لیئے آ پہنچااور برطانیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے لگا۔ جس سے اس تحریک کو اور طاقت ملی۔انہوں نے مزحمت کاروں کو منظم و مسلح کیا۔ انہیں پیسا، اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔ 
رینی اور گیری نے نور کو پیرس کے حالات سے آگاہ کیا۔ اسے بتایا کہ وہاں انگریز جاسوس کیا کر رہے ہیں اور گستاپو کیسے ان کی بو سونگھ رہی ہے۔یہ تینوں گفتگو کر رہے تھے ایک جانب رکھا ریڈیو چل رہا تھا اچانک بی بی سی کی نشریات میں کہا گیا ’’کہ آج رات جاسمین بانسری بجائے گی۔‘‘ یہ ایک کوڈ پیغام تھا اور اس میں نور اور اس کی ساتھیوں کے پیرس پہنچنے کی اطلاع پوشیدہ تھی۔نور جلد ہی رینی اور گیری سے بے تکلف ہو گئی۔ ان دونوں بہن بھائی کا ساتھ اس کے لیئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا ۔ دشمنوں کے شہر میں ان کا ساتھ اس کے لیئے ایک بڑا نفسیاتی سہارا تھا۔
پیرس میں ایک خفیہ جاسوس میجرفرانسس الفریڈ سوتی جس نے پرسپیٹر فیزیشن کے کوڈنام سے ایک نیٹ ورک قائم کیا ہوا تھا یہ پیرس کا سب سے بڑا گروپ تھا۔یہ خفیہ اطلاعات لندن پہنچاتے تھے، اسلحہ اور رقم وصول کر کے تقسیم کرتے تھے۔ تربیت کے لیئے لوگوں کو انگلستان بھیجتے تھے اور وہاں سے آنے والے خفیہ جاسوسوں کو مدد فراہم کرتے تھے۔رینی اور گیری بھی اس کے ارکان تھے۔ نور اس کے ساتھ شامل ہوگئی۔؂پروسپیٹر کے خفیہ ارکان خاصی تعداد میں تھے اور پیرس کے بہت بڑے علاقے میں کام کر رہے تھے. یہ خاصا سخت وقت تھا نازی خفیہ ادارے زیشاہٹسزیسٹ ایس ڈی کے اہلکارجگہ جگہ جاسوسوں کی بو سونگھتے پھر رہے تھے۔ابھی نور کو پیرس پہنچے ایک ہفتہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ24 جون 1943کو کچھ لوگ گستاپو کے ہاتھ لگ گئے پھر تو ان پر قہر سا ٹوٹ پڑا،اور اس کے نتیجے میں آنے والے ڈیڑھ مہینے کے دوران پروسپیٹر فزیشن سے تعلق رکھنے والے سب وائرلیس آپریٹراور سینکڑوں مزاحمت کار گرفتار ہو گئے۔یہاں تک کہ جولائی میں پورے پیرس میں صرف ایک ہی وائر لیس آپریٹر باقی رہ گئی، نور عنایت خان عرف نورا بیکر عرف میڈلین۔ 
وائرلیس آپریٹر کا کام انتہائی خطرناک تھا ۔ اس میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ جو یہ کام کرتا ہے اس کی زندگی زیادہ سے زیادہ چھ ہفتے ہوتی ہے اس دوران وہ پکڑا جاتا ہے یا مارا جاتا ہے۔ عموماََ یہ کام مرد ہی کرتے تھے نور پہلی خاتون تھی جس نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔
نور کو محسوس ہو رہا تھا کہ اب اس کے لیئے بھی خطرہ بڑھ رہا ہے مگر اس نے سوچا کہ یہ نازک وقت ہے اس وقت اسے اپنی لکھی ہوئی کہانی جو لیو نے اسے سنائی تھی یاد آئی اس نے سوچا ’’میں وہ بندروں کا سردار ہوں جس نے اپنی قربانی دے کر اسی ہزار بندروں کی جان بچائی تھی، ہاں لیو نے مجھے یہی مثال دے کر سمجھایا تھا۔‘‘
نور نے ایف سیکشن کے سربراہ بکماسٹر سے رابطہ کر کے اسے موجودہ خطرناک حالات سے آگاہ کیا اور پروسپیٹر کے ختم ہونے کی اطلاع دی تو اس نے نور سے کہا ۔ ’’ وہاں خطرہ بہت بڑھ گیا ہے ، تم فوراََ واپس آ جاؤ۔‘‘
مگر خطرہ محسوس کرنے کے باوجود نور نے واپس آنے سے انکار کر دیا اس نے کہا۔’’ میں ابھی تو آئی ہوں مجھے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔اور اب پیرس میں میرے علاوہ کوئی دوسرا وائرلیس آپریٹربھی تو نہیں رہ گیا۔اگر میں بھی آ گئی تو یہاں کا سارا کام رک جائے گا۔سر آپ مجھ پر بھروسہ کریں میں دوسرا نیٹ ورک بناؤں گی مجھے اجازت دیں۔‘‘
دراصل بکماسٹرکی خواہش تو یہی تھی کہ نور ابھی وہیں رہ کر کام کرے کیونکہ ان کا بڑا نیٹ ورک ٹوٹ چکا تھا اور اب نور نے کہا تھا کہ وہ وہاں کام جاری رکھنا چاہتی ہے۔مگر وہ نور کو لاحق خطرات سے بھی واقف تھا اس لیئے ہچکچا رہا تھا۔ کچھ دیر غور کر کے اس نے نور کو اجازت دے دی۔ 
ٹھیک ہے نورا، مگر اپنا خیال رکھنا اور کبھی بھی غیر ضروری خطرہ مت مول لینا
‘‘۔’’
حالانکہ نور کے اساتذہ کا خیال تھا کہ وہ بہت کمزور اعصاب کی لڑکی ہے اور مشکل حالات سے نہیں گزر پائے گی ۔مگر نور نے ان کو غلط ثابت کر دیا۔ اپنی کمزور طبیعت کے باوجود اس کڑے وقت میں جب سارا نیٹ ورک ٹوٹ چکا تھا اور وہ اکیلی وائرلیس آپریٹر بچی تھی ،اس نے ہمت و بہادری سے سب سنبھال لیا۔وہ جانتی تھی کہ اس کے سر پر بھی خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے مگر اسے احساس تھا کہ وہ لندن اور پیرس کے درمیان رابطے کی آخری کڑی ہے۔ اس لیئے وہ خم ٹھونک کر میدان عمل میں اتر گئی۔
پروسپیٹر کے اکثر اہلکاروں کی گرفتاری کے باوجود اب بھی کئی لوگ میدان میں باقی تھے اور اپنے فرائض ادا کر رہے تھے۔نور نے ان سے رابطہ بحال کیا ۔ وہ اکیلی وائرلیس آپریٹر رہ گئی تھی جو آزاد تھی۔ وہ پروسپیٹر اہلکاروں سے ملنے والی معلومات لندن بھیجتی رہی۔ اب وہ  ایس ڈی کو ابتہائی مطلوب ایجنٹ کی حیثیت اختیار کر چکی تھی جس کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مارے جا رہے تھے۔ گستاپو کو علم ہوچکا تھا کہ اب پیرس میں صرف ایک ہی آپریٹر باقی ہے، جس کی تلاش میں وہ پاگلوں کی طرح گھوم رہے تھے۔انہیں اس کے بارے میں یہاں تک معلوم ہو چکا تھا کہ یہ آخری آپریٹر ایک عورت ہے اور اس کا نام میڈلین ہے۔ اس کا حلیہ مشتہر کیا جا چکا تھا جرمنی کے خفیہ ادارے کے اہلکار خصوصی طور پر سب وے اسٹیشنز اور بس کے اڈوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔وہ وائرلیس کی نشریات پکڑنے والی گاڑیاں بھی استعمال کر رہے تھے ، یہ گاڑیاں شہر بھر میں گھومتی رہتی تھیں۔ نور بھی پارے کی طرح حرکت کر رہی تھی وہ ایک نشست میں پندرہ منٹ سے زیادہ وائرلیس کا استعمال نہیں کرتی تھی کیونکہ زیادہ دیر استعمال کی وجہ سے وہ گاڑیاں نشریات کے مخرج کا پتہ لگا لیتی تھیں۔وہ بار بار جگہیں تبدیل کرتی تھی ۔وہ کسی ایک جگہ زیادہ دیر نہیں رکتی تھی۔ اسے میک اپ میں مہارت تھی۔ اس موقع پر یہ فن کام آیا اور وہ مختلف حلیے اور نام اختیار کرنے لگی۔اس نے اپنے بالوں کو بھی رنگ کر کے پہلے سرخ کیا پھرسنہری کر دیا ۔ وہ وائرلیس پر بات کرتے ہوئے بھی گردوپیش نظررکھتی تھی اور ذرا سا بھی شبہ ہو تو فوراََ سے پیشتر وہ جگہ چھوڑ دیتی تھی۔ اس نے جرمنوں کا ناک میں دم کر دیا تھا۔ اور ایسے حالات میں جب پیرس میں رکنا خطرناک تھا وہ خطرے کو خاطر میں لائے بغیر بڑی خوش اسلوبی سے اپنا کام کر رہی تھی۔
روزانہ تین بجے جی ایم ٹی دوپہر کو لندن میں اس کے پیغام کا انتظار کیا جاتا تھا۔ ہر بار رابطہ ختم کر کے وہ کسی پارک میں جا بیٹھتی تھی۔اس کا وائرلیس سیٹ ایک بریف کیس کی شکل میں ہر وقت اس کے ساتھ رہتا تھا۔ جس کا وزن تقریباََ پندرہ کلو تھا۔اس بریف کیس کا ہر وقت ساتھ رہنا بذات خود ایک بڑا خطرہ تھا۔ وہ اس دوران پابندی سے اپنی ماں کو خط بھی لکھتی رہی مگر ان میں اس نے کبھی یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے ، وہ بس اپنی خیریت کے بارے میں لکھتی کہ میں بالکل ٹھیک ہوں میری صحت اچھی ہے اور میں جلد ہی گھر آؤں گی پھر ہم مل کر خوشیاں منائیں گے۔ وہ یہ خطوط جانے والے ایجنٹس کے ساتھ بھیجتی تھی۔وہ لندن سے پوسٹ کر دیئے جاتے تھے۔
ایک اورایجنٹ  فرانس انتیلمے نے سنیما کے نام سے ایک زیر زمین تنظیم تشکیل دی ہوئی تھی جس کی ذمہ داری رینی اور گیری کو سونپی تھی ازاں بعد اس تنظیم کو فونو کا نا دے دیا گیاتھا۔ نور ان کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ ایک روزحسب معمول وہ نشریاتی رابطہ ختم کر کے ایک پارک میں بیٹھی تھی کہ اچانک دو جرمن آفیسرز وہاں سے گزرے انہیں کچھ شبہ ہوا تو انہوں نے نور سے پوچھا 
مادموزئیل ،اس بریف کیس میں کیا ہے
‘‘۔’’
نور جھوٹ نہیں بولنا چاہتی تھی اس لیئے اس نے اپنی تنظیم کے نام کی رعایت سے کہا ’’اس میں سنیما کی مشین ہے۔ چاہیں تو دیکھ لیں‘‘۔
نور نے جیسے ہی بریف کیس کی طرف ہاتھ بڑھایا انہوں نے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں مادموزئیل ، ہم معذرت چاہتے ہیں‘‘۔
اس کے علاوہ بھی وہ کئی بار خطرات میں پھنسی مگر خوش قسمتی سے بچ گئی۔
اب اس کی ذمہ داریاں بڑھ چکی تھیں وہ اب محض ایک وائرلیس آپریٹر ہی نہیں رہی تھی بلکہ ایک ساتھ کئی کام کر رہی تھی۔ جیسے لندن سے آنے والے ہتھیار وصول کرنا انہیں خفیہ مقامات تک پہنچانا پھر مزاحمت کاروں کو ان کی ترسیل، لندن سے آنے والے ایجنٹس کہاں اتریں گے، وہاں سے آنے والی رقمیں کیسے مزاحمت کاروں میں تقسیم ہوں گی۔ وہ لندن سے آ نے والوں کی مزاحمت کاروں سے ملاقاتیں بھی کرواتی تھی۔ رقم کبھی ایجنٹس کے ذریعے بھیجتی تھی ،کبھی مقام مخصوص کر کے وہاں خود رقم دینے بھی جاتی تھی۔ ایک طرح سے وہ اپنی ذات میں ایک تنظیم کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔نور سے پہلے یہ سارے خطرناک کام مرد انجام دیتے تھے۔ نور وہ پہلی عورت تھی جس نے اتنے بڑے پیمانے پر کام کیا۔اس نے جرمنوں کے خلاف معلومات حاصل کر کے ہیڈ آفس بھیجیں۔ 
ان کا ایک اہلکارییل نامی تھا ایک روز نور اس سے ملنے گئی مگر وہ وقت مقررہ پر نہیں پہنچا۔ وہ ایک ذمہ دار شخص تھا اور اس سے پہلے اس نے کبھی ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا تھا، وہ وقت کا بھی پابند تھا۔ نور کو تشویش ہوئی تو اس نے ایک فون بوتھ سے اس کا نمبر ملایا۔کچھ دیر گھنٹی بجنے کے بعد اس نے فون اٹھایا. ’’ ہیلو۔‘‘ اس کی آواز میں اضطراب سا تھا مگرنور نے پریشانی کی وجہ سے اس پر توجہ نہیں دی۔
 ہیلو ییل تم کہاں ہو؟ وقت پر پہنچے کیوں نہیں
‘‘؟’’
 میں ابھی فون پر زیادہ بات نہیں کر سکتا’’۔ ’’
 پھر کب ملو گے‘‘۔’’
 ایسا کرو تم فلاں جگہ فلاں وقت پر آ جاؤ۔ میں تمہارا انتظار کروں گا۔ ’’اس نے ایک نئی جگہ اور نیا وقت بتا دیا‘‘۔
 ٹھیک ہے میں وقت پر پہنچ جاؤں گی‘‘۔’’
نور اس رات مقررہ مقام پر پہنچی۔ تو اسے دور ییل کھڑا نظر آیا۔ وہ ییل کی طرف بڑھنے لگی۔ ییل کے قریب ذرا آڑ میں دو آدمی کھڑے تھے جن کا تعلق گستاپو سے تھا۔ اصل میں ییل آج گرفتار ہو چکا تھا اور اس کے ذریعہ گستاپو نے نور کو پکڑنے کا پلان بنایا ہوا تھا۔ ییل نے اپنی طرف بڑھتی نور کو اشارے سے خطرے کا سگنل دیا۔ اشارہ دیکھتے ہی نور نے برق رفتاری سے راہ فرار اختیار کی وہ دونوں گستاپو کے اہلکار اور ان کے ساتھ اور بھی چند اہلکار جو آس پاس چھپے ہوئے تھے اسلحہ نکال کر اس کے پیچھے دوڑے۔ انہوں نے اس پر فائر بھی کیئے مگر پیرس اس کا اپنا شہر تھا وہ اس کے گلی کوچوں سے اچھی طرح واقف تھی۔وہ بھاگنے میں بہت تیز تھی۔ اس نے ان کو گلیوں میں خوب چکر دیئے اور بالآخر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔
اب تک گستاپو کے پاس صرف اس کا حلیہ تھا مگر اب چند اہلکار ایسے بھی تھے جنہوں نے اچھی طرح سے اس کا چہرہ دیکھ لیا تھا۔ اگلی بار لندن رابطے میں اس نے بکماسٹر کو یہ سب بتایا تو بکماسٹر نے سختی سے آرڈر دیا کہ بس اب بہت ہو چکا تم فوراََ واپس آؤ۔ چونکہ اب حالات تبدیل ہو چکے تھے اور خطرہ بہت بڑھ گیا تھا تو اس نے بھی سوچا کہ یہی بہتر ہے سو اس نے لیو کو واپسی کا عندیہ دے دیا۔
اس رات اس نے رینی اور گیری کو بتایا؛ ’’ میں واپس لندن جا رہی ہوں
‘‘۔
گیری۔ ’’ کیاہوا اتنا اچانک؟ اوہ ڈیئر ہم تمہیں بہت یاد کریں گے‘‘۔
’’ میں بھی تم لوگوں کو نہیں بھول سکتی۔ تم لوگوں نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔‘‘
نور نے15اکتوبر1943 کا دن اپنے سفر کے لیے مقرر کیاتھا۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ رینی کچھ اور سوچ رہی تھی اس کی آنکھوں پر لالچ کی پٹی بندھ چکی تھی۔ گستاپو نے نور کی گرفتاری کے لیئے ایک لاکھ فرانک کا اعلان کیا تھا۔رینی نے اپنی عزیز دوست کے ساتھ دھوکا کیا اور گستاپو کو اس کے بارے میں بتا دیا۔ بعض محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ رینی نے صرف انعام کے لالچ میں یہ نہیں کیا تھا بلکہ اس کا بھائی گیری اور نور قریب ہو رہے تھے جو اسے پسند نہیں تھا۔جبکہ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ رینی فرانس انتیلمے کو پسند کرتی تھی مگر ان دنوں وہ کام کی وجہ سے نور کے قریب تھا تو رینی نے حسد و جلن کی وجہ سے یہ حرکت کی تھی۔ 
اپنے جانے سے دو دن قبل 13اکتوبر1943رات کے وقت نور سونے کی تیاری کر رہی تھی کہ اچانک گستاپو والے اس کے فلیٹ کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی ۔ دوران تربیت اس کے اساتذہ جو ایس او ای سے تعلق رکھتے تھے، ان کو شبہ تھا کہ نور کسی بھی قسم کی سختی یا سنگین صورت حال کا سامنا نہیں کر سکے گی مگر اس کے بالعکس نور نے اپنی گرفتاری کے وقت زبردست مزاحمت کی اور اس دلیری سے ایس ڈی آفیسرز کا سامنا کیا کہ وہ بھی گھبرا گئے۔ تین تین لوگ اس پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ آخر انہوں نے اس پر گنیں تان لیں اور مزید نفری طلب کر لی تب کہیں جا کر وہ اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسے84 ایوینیو فوچ پر واقع ایس ڈی ہیڈ کوارٹر پہنچا دیا گیا۔یہ ایک خوبصورت پانچ منزلہ  عمارت تھی۔ اس کی پانچویں منزل پر وہ جگہ تھی جہاں قیدیوں سے پوچھ گچھ کی جاتی تھی اور ان پر بد ترین تشدد بھی کیا جاتا تھا۔ وہاں اور بھی ایس ای او ایجنٹس قید تھے۔


یرس میں واقع ایس ڈی ہیڈ کورٹر کی پانچ منزلہ عمارت
وہاں پہنچتے ہی اس نے بیت الخلاء جانے کا مطالبہ کیا اسے لے جایا گیا۔ دروازہ مقفل کر کے اس نے دیکھا وہاں ایک کھڑکی تھی مگر وہ پانچویں منزل سے کود نہیں سکتی تھی اس نے کوشش کی کہ چھت تک پہنچ سکے ۔مگر اتنے میں باہر کھڑے سپاہیوں کو شک ہواتو انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا اور جواب نہ ملنے پر دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گئے اور اسے غائب پا کر فوراََ سیٹیاں بجانی شروع کر دی گئیں نتیجتاََ وہ فوراََ ہی پکڑی گئی۔ اس سے تفتیش کا سلسلہ شروع ہوا۔ مگر اس فرار کی کوشش کے بعدد اسے انتہائی خطرناک قیدی کا درجہ دیاگیا۔گستاپو نے دوران تفتیش اس پر بے حدتشدد کیا، مگراس نے زبان نہ کھولی۔ اس سے ایک ماہ سے زائد تفتیش کی جاتی رہی۔ جرمن اس کوڈ کی ،کی جاننا چاہتے تھے جو وہ استعمال کرتی رہی تھی مگر اس نے اپنے ہونٹوں کو سی لیا تھا، بدترین تشدد کا سامنا کر کے بھی اس نے ان کو کچھ نہیں بتایا۔
اس نے اپنی سرگرمیوں سے متعلق انہیں ایک لفظ بھی نہیں بتایا۔ مگر اسی دوران اس کی نوٹ بک ایس ڈی کے ہاتھ لگ گئی۔ یہ اس کی ایک فاش غلطی تھی کہ اس نے سکیورٹی قواعد کے بر عکس وہ تمام پیغام نوٹ بک میں لکھ رکھے تھے جو اس نے ایس او ای آپریٹرز کو بھیجے تھے۔ یہ ممکن ہے کہ اس نے اس غلط فہمی میں سب لکھے ہوں کہ اس کو یہ سمجھ نہیں آیا ہو کہ فائلنگ کا کیا مطلب ہے۔ چونکہ اس کو جلد از جلد پیرس بھیجنے کے لیئے اس کا کورس جلد ختم کر دیا گیا تھا اس لیئے ممکن ہے یہ چیز اسے سمجھانے سے رہ گئی ہو۔
حالانکہ اس نے جرمنوں کو اپنے کوئی سیکرٹ کوڈز نہیں بتائے مگر جرمنوں کواس نوٹ بک سے اتنی معلومات حاصل ہو گئیں کہ وہ نور بن کر غلط پیغامات بھیجنے لگے۔ لندن آفس فوری طور پر یہ سمجھنے میں ناکام ہو گئی کہ یہ پیغامات دشمن کی طرف سے آ رہے ہیں۔ (خاص طور پر آپریٹرز کے مورس کوڈز ٹرانسمشن کی طرز میں تبدیلی) اگرچہ ایم آر ڈی فوٹ کے مطابق زیشارتسڈینزڈ والے کوڈز کوپی کرنے میں بہت ماہر تھے۔نور خان کو ڈبلیو اے اے ایف کی سگنلر ہونے کی حیثیت سے ’بینگ اوے لولو‘ کی عرفیت د ی گئی تھی کیونکہ اس کا انداز بھاری ہاتھ سے وائرلیس استعمال کرنے کا تھا۔ لندن آفس کی غلطی کی وجہ سے تین اور ایجنٹ جو پیرس بھیجے گئے وہ پیراشوٹ کے ذریعے زمین پر پہنچتے ہی پکڑے گئے۔ 
سونیا اولشنسکی (تانیا) جسے مقامی طور پر ایس او ای نے ایجنٹ کے طور پر بھرتی کیا تھا ، اسے نور کی گرفتاری کا پتہ چلا تو اس نے انپے منگیتر جیکوائس ویل کے ذریعے لندن پیغام بھجوایا۔ اس نے محکمے کو نور کی گرفتاری کی اطلاع دی اور ہیڈ کوارٹر کو میڈلین کی طرف سے کسی بھی قسم کی مشکوک ٹرانسمشن سے آگاہ کیا۔
کرنل مورس بکماسٹر نے سونیا کے پیغام کو غیر مصدقہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا کیونکہ وہ سونیا کے نام سے ناواقف تھا۔، جس کے نتیجہ میں وہ نور کے ٹرانسمیٹر سے آنے والے پیغامات کو اصل سمجھتے رہے جس کی وجہ سے متعدد ایس او ای ایجنٹس مارے گئے۔ جن میں سونیا بھی شامل تھی۔ سونیا کو6جولائی1944 کو نیٹس ویلر ٹرتھ ٓف کونسنٹریشن کیمپ میں سزائے موت دی گئی۔
25 نومبر1943کو نورایس ڈی ہیڈ کوارٹر سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کے ساتھ اس کے دو ساتھی جون رنشو اسٹار اور لیون فائی تھے مگر بد قسمتی سے وہ کچھ ہی دیر بعد پکڑے گئے۔یہ لوگ چھت سے فرار ہو رہے تھے ۔اتفاق سے اسی وقت ہوائی حملہ کا سائرن بجا۔ایسے وقت میں قانون کے مطابق تمام قیدیوں کا شمار کیا جاتا تھا ۔ جب پہریدار ان کی کو ٹھڑی تک آئے توان کے غیاب کا فوراؒ ؒ علم ہو گیا اور وہ پکڑے گئے۔
نور خان کو کہا گیا کہ وہ ایک اقرار نامہ پر دستخط کر دے جس میں یقین دلایا گیا تھا کہ وہ آئندہ فرار کی کوشش نہیں کرے گی۔ مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس کے انکار کے بعد 27نومبر1943 میں نور کو حفاظتی تحویل میں بذریعہ ریل گاڑی جرمنی لے جایا گیا۔ اور اسے پفورزیئم میں ایک خفیہ قید خانے میں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ یہ ایک ایسی کال کوٹھڑی تھی جہاں دن رات کا بھی پتہ نہ چلتا تھا ۔ وہاں وہ دس مہینے یوں رہی کہ اس کے ہاتھوں میں مستقل ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں تھیں۔اسے انتہائی خطرناک قیدی کی حیثیت دی گئی تھی ۔ 
جیسا کہ اس کے قید خانے کے انچارج نے جنگ کے بعد تصدیق کی کہ نور نے عدم تعاون کا رویہ برقرار رکھا اور مسلسل جرمنوں کو کسی بھی قسم کی کوئی بھی مطلوبہ معلومات دینے سے انکار کرتی رہی۔ اس قید خانے میں جب اس پر زیادہ مایوسی طاری ہوتی تھی تو وہ روتی تھی جسے دوسرے قیدی سنتے تھے۔ ایس ڈی کے سابق سربراہ ہانس کیفر نے جنگ کے خاتمے کے بعد بیان دیا کہ نور نے دوران تفتیش گستاپو کو ذرا سی بھی حقیقی معلومات نہیں دی البتہ مسلسل جھوٹ بولتی رہی۔تاہم دیگر ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے ایک سادہ لباس تفتیش کا رکو ذاتی تفصیلات فراہم کیں جس کے بعد اس کے بچپن اور خاندان کے بارے میں کئے گئے سوالات کے لحاظ سے جانچ پڑتال کرنے کے لئے ایس ڈی کو فعال کیا گیا۔ 
فورزیم کیمپ
۔11ستمبر1944کو نور کو تین ساتھیوں کی ساتھ جنہیں کارلسرہی جیل سے لایا گیا تھا۔ ان کے نام ڈائنا ارون (یہ نور کے ساتھ ایک ہی جہاز میں فرانس پہنچی تھی مگر پکڑی گئی تھی)، آندرے برایل اور ویریلی تھے۔ ان کو ڈیچو کونسٹریشن کیمپ لے جایا گیا۔ 15ر1944کو علی الصبح ان چاروں عورتوں کو باہر میدان میں لایا گیا، جہاں ان کو سر کے پچھلے جصے میں پوائنٹ بلینک سے گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ قتل کے بعد ان کے اجساد کو فوری طور پربھٹی میں ڈال کر جلا دیا گیا۔ 
یچو کونسٹریشن کیمپ

ڈیچو کونسٹریشن کیمپ


ڈیچو کونسٹریشن کیمپ کا میدان جہاں ممکنہ طور پر نور کو گولی ماری گئی


کیمپ میں واقع وہ بھٹیاں جہاں نور کی لاش کو جلایا گیا۔











ایک ڈچ قیدی جو وہاں تھا اس نے 1958میں بیان 
دیاہے کہ نور خان کو قتل کرنے سے پہلے ولہیم روپرٹ نامی ایس ایس آفیسر نے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایاوہ اسے جانوروں کی طرح پیٹتا رہا ، اس نے نور پر گھونسوں کی بارش کردی۔ اس کا چہرہ خون سے سرخ ہو گیاتھا۔ جب وہ گر گئی تو وہ اس پر لاتیں برسانے لگا۔ مگر نور نہ روئی نہ اس نے رحم کی بھیک مانگی یہاں تک کہ وہ لہولہان ہو گئی اس کے کپڑے خون سے تربتر تھے آس پاس زمین بھی نور کے خون سے سرخ ہو چکی تھی روپرٹ کے جوتوں پر بھی نور کا خون لگا ہوا تھا۔ روپرٹ تھک کر ہانپنے لگا۔ مگر نور یونہی پڑی اسے گھورتی رہی۔قب وہ اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہی تھی یہ دیکھ کروہ چلایا اسے گولی مار دو۔
نور کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اسے اسی حالت میں اٹھا کر بٹھایا گیا اور پیچھے سے سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔نور کے آخری الفاط تھے ’لیبرتے‘‘ یہ فرنچ لفظ ہے بمعنی آزادی۔ 
جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جہاں ایک طرف خوشیاں منائی جا رہی تھیں وہیں نور اور اس جیسی چند دوسری خواتین ایجنٹس کے گھر والے ان کی گمشدگی کی وجہ سے پریشان تھے۔ تب بکماسٹرکی اسسٹنٹ ویراایٹکنس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ ان گمشدہ خواتین کا پتہ لگائے۔ جنگ کے دوران دشمن ممالک میں کام کرنے والی عورتوں کی خبر گیری اسی پر تھی۔ وہ پیرس پہنچی اور تفتیش شروع کی تو ابتداء میں یہ اطلاعات ملیں کہ چار خواتین قیدیوں کو پیرس سے بذریعہ ریل گاڑی جرمنی کے شہر کارلسرو لے جایا گیا تھا، ان میں نور بھی شامل تھی۔ان میں سے تین عورتوں کی شناخت ڈائنا،آندرے اور ویریلی کے نام سے ہو گئی مگر چوتھی کی شناخت ہنوز ایک راز تھی۔مگر یہ مسئلہ اس وقت حل ہوا جب چھ مہینے بعدنور کے بھائی ولایت کو ایک خط ملا۔یہ خط ایک انگریز قیدی نے لکھا تھا اس نے لکھا کہ میں جرمنی میں شورزیئم کے قید خانے میں تھا میرے ساتھ والی کوٹھڑی میں ایک انگریز عورت قید تھی جو ایس ای او کی ایجنٹ بتائی جاتی تھی، اس نے اپنا نام نوراا بیکر اور پتہ 4 ٹاویٹن سٹریٹ لندن بتایا تھا۔ اسے بہت بری حالت میں رکھا گیا تھا اس کے ہاتھ پیر زنجیروں سے اس طرح جکڑے رہتے تھے کہ وہ اپنے جسم کو پوری طرح سیدھا بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ہم اکثر اس کے رونے اور کراہنے کی آوازیں سنتے تھے۔
اب اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ وہ نور ہی تھی۔ ولایت نے مزید معلومات حاصل کیں جب ویرا کو پتہ چلا تو وہ بھی اس کی مدد کو آ پہنچی۔ ان دونوں کی مشترکہ کوششوں نے ثابت کر دیا کہ اس دن جن چار عورتوں کو ہلاک کر کے بھٹی کی نذر کر دیا گیا تھا ان میں چوتھی نور ہی تھی۔
رینی میٹ انگلینڈ میں ائر فورس میموریئل میں نور خان کی علامتی قبر بنائی گئی ہے۔ 
اسے بعد از مرگ جو ایوارڈز اور تمغے ملے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
جورج کروس 1949۔
فرنچ کروس دو گورے مع سلور سٹار۔


جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جن تین ایف اے این آئی ممبرز کا انتخاب کیا گیا جنہیں جورج کروس دیا جانا تھا نور بھی ان میں شامل تھی۔ جورج کروس برطانیہ کا سب سے بڑا اعزاز ہے جو جنگ کے دوران انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرنے پر دیا جاتا ہے۔
سال 2011 کے آغاز میں ایک مہم چلائی گئی ۔ جس کا مقصد تھا کہ ایک لاکھ پاؤنڈ جمع کیئے جائیں جس سے نور کا کانسی کا مجسمہ بنا کر سنٹرل لندن میں واقع اس کے پرانے گھر کے قریب نصب کیا جائے۔کہا جاتا ہے کہ یہ پہلی یادگار ہے جو برطانیہ میں کسی مسلم یا ایشین عورت کی بنائی گئی ہے۔ 
دن میں نور کے گھر کے باہر نصب اس کا مجسمہ
نور کا یادگاری ڈاک ٹکٹ












نائٹس برج کے ولٹن پیلس میں واقع سینٹ پول چرچ میں جنگ عظیم دوئم کے ایف اے این آئی کی یادگار میں باون ایسے ممبرز کا ذکر ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں قربان کر دیں ان میں نور کی یادگار بھی شامل ہے۔ کیونکہ نور کی ابحی عمر ہی کیا تھی؟ ابھی تو اس کے کھیلنے کھانے کے دن تھے مگر موت کے بھیانک جبڑے نے اسے چبا لیا۔

No comments:

Post a Comment