فری میسنز لاج

ہم
پی آئی اے کے دفتر کے سامنے وائی ایم سی اے گراؤنڈ کی لائن میں واقع اس عمارت میں
پہنچے جس پر محکمہ جنگلی حیات کا بورڈ آویزاں ہے۔ اندر پہنچ کر ہماری نظر ایک تختی
پر پڑی جس پر دجال کا نشان بنا ہوا تھا، یہ عمارت 1914ء میں فری میسنز ٹرسٹ نے
بنائی تھی اور انہوں نے اس کو جادوگھر کا نام دیا تھا۔ اس عمارت کو فری میسنز نے
کئی
برس اپنے اجتماعات کے لیے استعمال
کیا، اسوقت مقامی لوگوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہاں کیا سرگرمیاں ہو رہی ہیں، بلآخر
1972ء میں پاکستان میں فری میسنز پر پابندی عائد کر دی گئی اور یہ عمارت حکومت نے اپنے
قبضہ میں لے لی جسے بعد ازاں محکمۂ جنگلی حیات کو دے دیا گیا۔یہاں اب بھی کئی جگہ تختیوں
دیواروں اور لکڑی پر فری میسنز کا مخصوص نشان کندہ ہے اور اس عمارت کے بارے میں لکھا
ہے۔۔
قائد اعظم ہاؤس میوزیم
یہ
سٹاف فلیگ ہاؤس کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ میوزیم میٹروپول ہوٹل کے عقب میں ہے۔

یہ مکان انیسویں صدی کے
آخر میں بنایا گیا تھا اور اس کی ملکیت 1922ء تک رام چند کچھی لوہانا کے پاس تھی۔
1940ء سے برٹش انڈین آرمی نے اسے کرائے پر لے کر اپنے سینئر آفیسرز کو رہائش کے لیے
دے دیا۔، جن میں جنرل ڈگلس ڈی گریسی بھی شامل تھے جو آزادی کے بعد پاکستان روئل آرمی
کے سربراہ بنے تھے۔، اسی لیے اس کو فلیگ سٹاف ہاؤس کے نام سے موسوم کیا گیا۔ یہ مکان
قائد اعظم کی ملکیت میں 1943ء میں آیا جب اسے کراچی کے ایک سابق میئر سے ایک لاکھ پندرہ
ہزار روپے میں خریدا گیا۔ ستمبر 1947ء میں قائد اعظم کا سامان ۱۰اورنگزیب روڈ دہلی سے یہاں منتقل کیا
گیا۔ قائد اعظم نے اس کو گورنر جنرل ہاؤس کے طور پر استعمال کیا۔ 31 ستمبر 1948ء
کو قائد اعظم کی رحلت کے بعد محترمہ فاطمہ جناح یہاں منتقل ہو گئیں اور اس کو
خاندانی رہائش کی حیثیت دیدی گئی۔ فاطمہ جناح یہاں 1964ء تک رہائش پذیر رہیں پھر
وہ موہٹا پیلس یا قصر فاطمہ منتقل ہو گئیں، تاہم قائد کی بہن محترمہ شیریں بائی
اپنی وفات تک یہاں رہیں ان کے بعد یہ مکان قائداعظم ٹرسٹ نے سنبھال لیا۔ 1985ء میں
یہ مکان حکومت پاکستان نے ٹرسٹ سے خرید لیا اوراس کو قائد اعظم ہاؤس کا نام دیکر
بطور میوزیم عوام کے لیے 25 نومبر 1993ء کو کھول دیا گیا۔ ہم یہاں چار بجے پہنچے
تو ہمیں بتایا گیا کہ میوزیم کا وقت چار بجے ختم ہو جاتا ہے۔ خیر یہ پہلے بھی
دیکھا ہوا ہے اس لیے ہم آگے بڑھ گئے۔
موھٹا پیلس
اب
ہم اولڈ کلفٹن پر واقع موھٹا پیلس کے سامنے تھے وقت تنگ تھا مگر ہمیں ٹکٹ مل
گئے۔یہ
محل نما بنگلا راجھستان
کے مشہور تاجر شو رتن موھٹا نے 1927ء میں بر صغیر کے پہلے مسلمان آرکیٹکٹ آغا احمدحسین
کے تیار کردہ ڈیزائن پر بنوایا تھا، آغا احمد حسین کا تعلق جے پور سے تھا وہ میونسپل
کارپوریشن میں چیف سرویئر تھے انہوں نے جے پور کے فن تعمیر کے زیر اثر اسے اینگلو مغلیہ
انداز میں بنایا۔ آزادی کے بعد حکومت پاکستان نے اس میں وزارت خارجہ کا دفتر قائم کر
دیا، جب اسلام آباد دارالحکومت بن گیا اور دفاتر وہاں منتقل ہو گئے تو یہ عمارت محترمہ
فاطمہ جناح کو رہائش کے لیے دے دی گئی۔ وہ یہاں اپنی وفات 1967ء تک رہیں ان کے بعد
یہ جائیداد ان کی بہن شیریں جناح کو مل گئی تاہم ان کے انتقال کے بعد یہ متنازعہ جائیداد
کی حیثیت

اختیارکر گئی اور لاوارث
عمارات کے زمرے میں آ گئی۔ 1995ء میں اسے سندھ حکومت کی مدد سے حکومت پاکستان نے باقاعدہ
خرید کر ایک خود مختار بورڈ آف ٹرسٹیز کے حوالے کر دیا تاکہ اسے پاکستانی ورثہ کا میوزیم
بنایا جا سکے۔ 15 ستمبر 1995ء کوتالپور حکمرانوں کے نوادرات سے اس کا افتتاح کیا گیا۔
تب سے اب تک یہاں مختلف نمائشوں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ کہتے ہیں جب مستقل نوادرات
مل جائیں گے تو اسے بھی مستقل میوزیم کی حیثیت دے دی جائے گی،ہمارے خیال سے تو یہ ایک
لطیفہ ہی ہے ایں خیال است محال است و جنوں است کیونکہ پاکستان چوک پر واقع نیشنل میوزیم
کی تباہی اوردن دھاڑے ڈکیتی کو دیکھتے ہوئے کیا امید کی جا سکتی ہے۔ جب محافظ ہی ڈاکو
بن جائیں یا یوں کہہ لیجیے کہ آپ ڈاکووؤں کو اپنا محافظ منتخب کر لیں گے تو ان سے اور
کیا امید کی جا سکتی ہے۔
موھٹا پیلس کے عقبی حصہ میں چند بت رکھے ہیں جو انگریزوں
کے دور میں سڑکوں پر آویزاں رہے ہوں گے ان میں ملکہ وکٹوریہ کا بت بھی شامل ہے۔
ارے یہ کیا ہے اچانک ہماری نظروں کے سامنے ہمارا بچپن گھومنے لگا یہ ہم نے کیا دیکھ
لیا۔۔۔ جی وہاں دو شیروں کے
دھاتی مجسمے رکھے ہوئے تھے اور ان مجسموں سے ہمارا
بچپن جڑا ہوا تھا۔ یہ مجسمے چڑیا گھر میں لگے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں وہیں دیکھا
تھا اور نہ صرف دیکھا ہی تھا بلکہ متعدد بار ان پر سوار ہوئے ہیں ہم نے ان پر چڑھ
کر تصویریں بنوائی ہیں اب یہ یہاں رکھے ہیں، آج کیفے مبارک نے ہمیں لڑکپن کی سیر
کروائی تھی مگر ان شیروں نے تو ہمیں بچپن میں پہنچا دیا۔ ہمارے کانوں میں آنجہانی
جگجیت سنگھ جی کی ریشمی آواز گونجنے لگی، یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو، بھلے
چھین لو مجھ سے میری جوانی، مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون ،وہ کاغذ کی کشتی وہ
بارش کا پانی۔
شری رتنیسور مہادیو
مندر

ہم
اب کلفٹن پر ہیں ، یہاں یہ قدیم مندر ہے جو قریب 150 سال پرانا ہے اور آج بھی یہاں
پوجا ہوتی ہے۔ہم نے اندر جانے کا پوچھا تو جواب ملا کہ ابھی پوجا ہو رہی ہے اگر آپ
اندر جانا چاہتے ہیں تو منگل کی صبح کو آ جائیں ویسے اجازت نہیں ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے
موجودہ کام کی وجہ سے یہ مندر اورجہانگیر کوٹھاری پریڈ وغیرہ کو خطرہ پیدا ہو گیا
تھا کیونکہ تاریخی آثار سے ایک مخصوص فاصلہ چھوڑ کر کام کیا جا سکتا ہے تاکہ ان
آثار کو نقصان نہ پہنچے مگر یہ پاکستان ہے اور کام بحریہ ٹاؤن کا ہے ۔جب اس مندر
میں کریک پڑنے کی شکایات آئیں جس پر میڈیا اور سول سوسائیٹی نے فوری ایکشن لیا اور
سندھ ہائی کورٹ نے آرڈر جاری کیا ورنہ شاید یہاں کچھ نہ بچتا۔
پلے لینڈ ، فن لینڈ
اور ماہی خانہ
ہر
طرف ملک ریاض کی پھیلائی ہوئی مٹی اڑ رہی ہے۔سامنے دیکھا تو پتہ چلا کہ اب یہاں
پلے لینڈ نامی کوئی چیز
نہیں ہے۔ اس پر جو دکھ ہم نے محسوس کیا وہ بیان سے باہر ہے ۔ ہماری طرح جن لوگوں کی
بچپن کی یادیں پلے لینڈ سے جڑی ہوں گی وہی اس دکھ کو محسوس کر سکتے ہیں ہم اپنے بچپن
میں یہاں آیا کرتے تھے جب کچھ بڑے ہوئے تو بہن بھائیوں کو لانا شروع کیا،بڑی یادیں
وابستہ ہیں یہاں سے اورآج ۔ ۔۔۔۔آج یہاں صرف مشینوں کی گھڑگھڑاہٹ ہے اور چاروں طرف
اڑتی ہوئی مٹی ہے، پلے لینڈ کی جگہ ایک خالی قطعہ زمین ہے۔ کاش اس لینڈ مارک کو یوں
تباہ نہ کیا جاتا جس سے کئی لوگوں کی جذباتی وابستگی ہے۔ مگر شاید آج جذبات کچھ نہیں
صرف پیسہ ہی سب کچھ ہے اور ملک ریاض صاحب ان
کی نظر میں کنکریٹ کا جنگل
ہی سب سے بہتر ہے جس سے ان کے بنک اکاؤنٹس اور تجوریوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔۔خیر ان
کی بات چھوڑیں اور تھوڑا لکھے کو بہت جانیں۔ یہاں فن لینڈ ہوا کرتا تھا جسے کچھ فاصلے
پر لے جایا گیا ہے۔ اور یہ ماہی خانہ ہے جی ہمارا مطلب ہے ایکوریم ۔ بھئی یہ ایکوریم
تو بہت بعد میں ہوا ہے ہم تو بچپن میں ماہی خانہ دیکھنے
جاتے تھے اور اس شوق میں
اتنی بہت سی سیڑھیاں چڑھتے تھے۔ ان سیڑھیوں پرہر وقت لوگوں کا جھمگٹا لگا رہتا تھا
یہاں ہم نے ایک نوجوان کو پھول بیچتے دیکھا تھا اب تو وہ بزرگ ہو چکا ہو گا مگر یہ
برسوں پرانی بات ہے وہ پھول بیچتا تھا اور لوگوں کی فرمائش پر کبھی الاپ اور کبھی گانے
سناتا تھا بہت ہی اچھی آواز کا مالک تھا اور سریلا بھی تھا۔ اب نہ جانے کہاں ہو گا
ہماری درخواست ہے کہ اگر یہ سطریں اس کی نظرسے گزریں تو شہر خیال میں کچھ اپنے بارے
میں بتائے۔