ایمپرس مارکیٹ


یہ صدر کا مشہور ترین اور پرہجوم مقام ہے۔یہ مارکیٹ
انگریز دور میں 1884ء سے1889ء کے دوران تعمیر ہوئی اس کا نام ملکہ وکٹوریہ ایمپریس
آف انڈیا کے لقب پر رکھا گیا۔ اس کی تعمیر کے لیے خوب سوچ سمجھ کر یہ جگہ چنی گئی
تھی جہاں کوئی تعمیرات نہیں تھیں اس وقت یہ مارکیٹ دور سے واضح نظر آتی تھی ۔ یہی
وہ مقام تھا جہاں 1857ء میں بغاوت کرنے والے سپاہیوں کو بڑی بے رحمی کے ساتھ موت
کی سزائیں دی گئی تھیں،تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں، ان کوسر عام توپ کے گولوں سے اڑایا
گیا تھاتاکہ کوئی اور بغاوت کا سوچ بھی نہ سکے۔اس کی بنیاد بمبئی کے گورنرجیمس
فرگوسن نے 1884ء میں رکھی تھی، اسی نے میری ویدر ٹاور جسے اب صرف ٹاور کے نام سے
یاد کیا جاتا ہے کی بنیادبھی رکھی تھی ۔ اس کا ڈیزائن جیمس سٹریچن نے بنایا تھا
اوربنیاد ایک انگریزی فرم اے جے اٹفیلڈ نے بنائی جبکہ عمارت کی تعمیر ایک مقامی
فرم محمود نوان اینڈ دولو کھیجو نے کی ۔ اس میں قریب دو سو اسی دکانوں اور سٹالز
کی گنجائش رکھی گئی تھی اور قریب ہی ایک تفریحی پارک بھی بنایا گیا تھا، یوں
سمجھیں یہ اس دور کا ایک شاپنگ مال تھا جہاں خریدار کو اپنی ضرورت کی تقریباً ہر
چیز مل جاتی تھی،اور صرف یہی نہیں انگریزوں نے ایسی سات مارکیٹیں یا مالز کراچی
میں مختلف مقامات پر بنائی تھیں٫
گلبائی میٹرنیٹی ہوم



سے بات کی تو ان کا بیان تھا کہ یہ عمارتیں ہسپتال کے سٹاف کے لئے بنائی گئی تھیں جو بعد میں ان کو مستقل رہائش کے لئے دے دی گئیں اور یہ لوگ ان ہی کی اولادمیں سے ہیں۔
رتن تلاؤ ۔اردو بازار۔برنس
روڈ


یہاں اب بھی بہت سی انگریز دور کی عمارات ہیں ایک عمارت جو اندر کے روڈ پر ہے اس پر ہندوستان کے جھنڈے بنے ہوئے ہیں اور ہندی زبان میں سوراج بھون لکھا ہوا ہے۔ اردو بازار میں ایک عمارت ہے جس کی گیلریوں کی جالی پر گاندھی کی تصویریں بنی ہوئی ہیں، اور بھی کافی پرانی عمارتیں یہاں موجود ہیں کسی پر ہندو نام لگے ہیں کسی پر دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں بنی ہوئی ہیں۔
اوہ یہ کیا وہ اکیلا کھڑا ہے اداس درماندہ خستہ حال جی ہاں یہ ایک لیٹر بکس ہے جسے

دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں آج برسوں بعد یہاں نظرآیا تو اس حال میں کہ اپنی حالت پر ماتم کناں تھا، ایک زمانہ تھا جب اس کی بڑی اہمیت تھی مگرآج سائینس کی ترقی نے اسے اس حال کو پہنچا دیا ہے کہ اب کوئی اس سے رجوع نہیں کرتا نہ کوئی خط ڈالتا ہے نہ ڈاکیا خط نکالنے آتا ہے۔وہ زمانے بھی تھے جب لوگ خط آنے کا انتظار کرتے تھے ڈاکیا اپنی سائیکل پر مخصوص گھنٹی بجا کر اپنی آمد کا اعلان کرتا تھا مگر وقت وقت کی بات ہے اب تو ، جی ہاں اب یہ ای میل اور ایس ایم ایس کادور ہے۔اب ہم پہنچے ہیں برنس روڈپر جو غالباً کراچی کی پہلی
فوڈا سٹریٹ
ہے، یہاں لسی پی کر تازہ دم ہوکر پھر اپنے تاریخ کے سفر پر نکل گئے۔
خالقدینا ہال
یہ ایم اے جناح روڈ پر واقع غلام حسین خالقدینا ہال اینڈ لائبریری ہے۔ اس کا خوبصورت

طرز تعمیر آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ اس کی تعمیر 1906ء میں ہوئی تھی ، کل لاگت تینتیس ہزار روپے تھی جس میں سے اٹھارہ ہزار غلام حسین خالقدینا نے دیے جبکہ باقی رقم بلدیہ کراچی نے دی۔ اس کی تعمیر ادبی سرگرمیوں کے لیے ہوئی تھی مگر اس عمارت کو خاص شہرت تب ملی جب مولوی شوکت علی اور مولوی محمد علی جوہرپر خلافت موومنٹ میں حصہ لینے کے الزام میں مقدمہ چلا، انگریزوں نے اس عمارت کو کورٹ بنا کردونوں بھائیوں پر مشہور مقدمہ بغاوت چلایا تھا۔
آرام باغ


کہا جاتا ہے کہ اس کا اصل نام رام باغ تھا اور اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ جب ہندووں کے مشہور اوتار رام، جب چودہ برس کا بن باس کاٹ رہے تھے تو وہ یہاں سے گزرے تھے ان کی پتنی سیتا اور بھائی لکشمن بھی ساتھ تھا انہوں نے یہاں رک کر کچھ وقت گزارا تھا مگر بعد میں کثرت استعمال سے رام باغ آرام باغ بن گیا۔ یہاں سکھوں کا ایک گردوارہ ہے،یہ گردوارہ اب بند ہے اس لیے ہم صرف باہر سے ہی دیکھ سکے ۔ آگے روڈ پر ایک پرانی خستہ حال مگر خوبصورت عمارت نظر آئی جس کی تفصیل نا معلوم ہے۔
ہائی کورٹ

یہ بھی ایک خوبصورت پرانی عمارت ہے۔ اس کی تعمیر 1923ء میں شروع ہوئی اور 1929ء میں مکمل ہوئی، اس پر کل لاگت 1975248 روپے آئی۔ بعد میں پاکستان حکومت نے اس میں توسیع کی مگر اصل عمارت کو یونہی رکھا اور اس سے متصل نئی عمارتیں بنوائیں۔
No comments:
Post a Comment