Friday, January 15, 2016

ایک دن کلاچی کے ساتھ قسط 1

ہماری یہ تحریر ماہنامہ سرگزشت اکتوبر 2015 کے شمارے میں کراچی کراچی کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔
----------------------------------------------------------------------
ایک دن کلاچی کے ساتھ  قسط 1 

ہمارے ایک دوست جن کا نام زبیر ہے قریب دس سال قبل وہ اچانک کباڑی بن گئے، جی نہیں آپ غلط سمجھے وہ جونا پرانا ڈبہ باٹلی کی آوازیں لگانے والے کباڑی نہیں بلکہ ان کو اچانک تاریخ سے دلچسپی ہو گئی اور وہ بھی کراچی کی تاریخ سے، سو انہوں نے کمر کس لی اور نیٹ پر تحقیق شروع کی پھر موٹر سائیکل پر اور اس کے بعد پیدل گھومے اور بہت سی عمارتوں اور جگہوں کا پتہ لگایا۔ اس بار ہم کراچی گئے تو ان کے ساتھ ایک اتوار کا دن گزارا اور کچھ جگہیں دیکھیں، تو سوچا کہ ان معلومات کو سرگزشت کے حوالے کردیا جائے 
شاید قارئین میں سے کوئی یہ سب دیکھنا چاہے۔ 


کراچی تین سو سال قبل تک ایک چھوٹی سی
 بستی تھی جسے کلاچی کہا جاتا تھا (بعض لوگوں کو اس روایت پر اعتراض ہے) جہاں ماہی گیر رہتے تھے ، اب بھی ان کی نسلیں کھڈہ لیاری میں آباد ہیں۔ سترھویں صدی کے آخر میں یہاں سے مسقط عمان اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ تجارت شروع ہوئی جس کے بعد اس بستی نے ایک چھوٹے سے شہر کا روپ دھارنا شروع کیا ، 1795ء میں خان قلات نے منوڑا میں ایک چھوٹا سا قلعہ بنا کر سندھ کے حکمران کے حوالے کر دیا۔ اس علاقہ کی تجارتی اہمیت کو دیکھتے ہوئے انگریزوں نے 1839ء میں سر چارلس نیپئر کی کمان میں حملہ کیا اور شہر پر قبضہ کر لیا، بعد ازاں 1846ء میں کراچی کو برٹش انڈیا میں ایک ڈسٹرکٹ کی حیثیت دے دی گئی، اس وقت آبادی تقریباً نو ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ اسی سال کراچی میں ہیضہ کی وبا پھیل گئی جس سے نمٹنے کے لئے حکومت نے ایک کنزروینسی بورڈ بنا دیا جسے بعد ازاں 1852ء میں میونسپل کمیشن میں بدل دیا گیاپھر 1853ء میں ترقی دے کر میونسپل کمیٹی میں تبدیل کر دیا گیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں باغی سپاہیوں نے کراچی پرقبضہ کر لیا مگر جلد ہی یہ تحریک ناکام ہو گئی اور شہر کا قبضہ ایک بار پھر انگریزوں نے حاصل کر لیا۔ 1878ء میں شہر کو ریل کیے ذریعہ باقی ملک سے جوڑ دیا گیا ۔ مشہور تاریخی عمارات فریئر ہال اور ایمپریس مارکیٹ بنائی گئیں۔ اسی شہر میں 1876ء میں قائداعظم پیدا ہوئے جن کی قیادت میں 1947ء میں مسلمانوں نے پاکستان حاصل کیا۔1847ء میں کراچی سمیت سندھ کو بمبئی میونسپل کے تابع کر دیا گیا اس وقت تک آبادی بڑھ کر ایک لاکھ پانچ ہزار تک پہنچ گئی تھی جن میں مسلمان ، ہندو ، پارسی، یہودی، ایرانی، لبنانی اوران کے علاوہ گوا کے عیسائی تاجر بھی شامل تھے۔ 1900ء میں شاہراہوں پر بڑھتے ہجوم کے پیش نظر ہندوستان کا پہلا ٹراموے کا نظام یہاں متعارف کرایا گیا، ابتدا میں ٹرام کو گھوڑے کھینچتے تھے مگر بعد ازاں میکانکی گھوڑے یعنی انجن نے ان کی جگہ لے لی۔


 1933ء میں کراچی میونسپل ایکٹ تشکیل دیا گیا اور اسی سال کراچی میونسپل کارپوریشن بنا دیا گیا اس میں ستاون کونسلر منتخب کئے گئے جن کا تعلق مختلف مذہبی برادریوں سے تھا۔ جناب جمشید نسروانجی جو پارسی برادری سے تعلق رکھتے تھے پہلے میئر منتخب ہوئے جو اس سے پہلے کراچی کے پرانے نظام کے تحت بیس سال تک صدر کے عہدہ پر فائز رہے تھے ان کی کئی یادگاریں آج بھی اس شہر میں بکھری ہوئی ہیں۔ ان کو موڈرن کراچی کا باپ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے دور میں کراچی نے کافی ترقی کی تھی یہ ایک صاف ستھرا شہر تھا جہاں بڑی سڑکیں چوڑے فٹ پاتھ (جو اب ناپید ہیں) خوبصورت عمارتیں اور سب سے بڑی چیز شہریوں کے لیے بنیادی سہولیات تھیں جوبد قسمتی سے اب عنقا ہیں۔ یہاں مختلف اقوام اور مذاہب کے لوگ باہم اتفاق سے رہتے تھے ، غرض یہ صحیح معنوں میں ایک کاسموپالیٹن شہر تھا۔ 1936ء میں کراچی کو سندھ کے دارالحکومت کی حیثیت دے دی گئی۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی کو ملک کا پہلا دارالحکومت بننے کا شرف حاصل ہوا جسے بعد میں اسلام آباد منتقل کر دیا گیا، مگر کراچی آج بھی ملک کا سب سے بڑا اور اہم شہر ہے اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ کراچی کا ایک مختصر تعارف تھا اب ہم اپنے سفر پر نکلتے ہیں۔

پرانی کتابوں کا بازار

ہمارا پروگرام یہ بنا تھا کہ صبح گیارہ بجے تک نکل جائیں گے مگر زبیر کو کچھ تاخیر ہو

گئی تو ہم نے زبیر کو فون پر مطلع کیا کہ ہم صدر جا رہے ہیں وہ تیار ہو کر وہیں آ جائیں، سو ہم صدر میں ریگل چوک کے قریب لگنے والے پرانی کتابوں کے سنڈے بازار میں پہنچ گئے۔کافی دن سے ہمارا ارادہ یہاں اانے کا تھا مگر موقع نہیں مل رہا تھا، آج آئے واقعی احساس ہوا کہ یہ جگہ صرف ایک بار نہیں بار بار آنے کے قابل ہے۔ وہاں گھوم پھر کر سب سٹالز دیکھے کچھ خریداری بھی کی اتنے میں زبیر کی کال آ گئی ہم ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے انہوں نے پوچھا کہ کہاں سے شروع کیا جائے تو ہم نے کہا صدر کے کسی پرانے ریستوراں میں لے چلو چائے پیٹیس سے شکم پری کر کے نکلتے ہیں۔

کیفے مبارک



 وہ ہمیں انکلسریا ہسپتال کے سامنے واقع کیفے مبارک میں لے گئے ، یہ ایک پرانا ایرانی ریستوراں ہے جو اب کسی بوہری صاحب کے پاس ہے انہوں نے اس کا بڑا خیال رکھا ہے ، ہر چیز نئی معلوم ہوتی ہے۔ دیواروں پر چلو مرغ و چلو کباب وغیرہ کے بورڈ اسی طرح لگے ہوئے تھے جیسے کسی زمانے میں ہم دیکھتے تھے۔وہاں داخل ہوتے ہی ہمارے سامنے لڑکپن کا دورگھومنے لگا، وہی میز کرسیاں ویسا ہی کاؤنٹر فضا میں رچی یادوں کی خوشبو،اس وقت ہمارے احساسات کیا تھے ان کو بیان کرنے کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں کتنی یادیں، کتنے چہرے، گویا ایک فلم سی دماغ میں چلنے لگی۔
خیر ویٹر کو بلایا تو پتہ چلا پیٹس نہیں ہیں زبیر نے کہا یوں کریں اب ایک بجنے والا ہے تو کھانا ہی کھا لیتے ہیں۔ ہم نے بھی سوچا ٹھیک ہے اور آرڈر دے دیا ، ویٹر نے سلیقے سے کھانا چنا اور جب ہم نے پہلا لقمہ منہ میں ڈالا تو ایک بار پھر ذہن نے ماضی کی طرف چھلانگ لگائی اس زمانے میں کھائے ہوئے کھانے کا ذائقہ یاد آیا، اس وقت جو لقمہ منہہ میں

تھا اس میں وہی مزا تھا ہم نے خاصی رغبت سے کھانا کھایا پھر زبیر نے ایک چائے منگوائی تو پھر ماضی سامنے آن کھڑا ہوا وہی کیتلی اس کے ساتھ چینی ایک الگ پیالی میں اور وہ چھلنی جو کپ پر رکھنی تھی ساتھ ہی ایک خالی کپ کیونکہ اس ایک چائے کے سیٹ میں دو کپ چائے ہوتی ہے۔، چائے کا گھونٹ لیا تو ایک بار پھر ماضی سامنے آ کھڑا ہوا ہمیں لگا جیسے ابھی ہم چند دوست فلم دیکھنے آئے ہیں اور انتظار کا وقت ایرانی چائے پی کر گزار رہے ہیں۔غرض یہ تجربہ اتنا شاندار رہا کہ کیا بتائیں ہم زبیر کے ممنون ہیں جن کی وجہ سے ہم نے حال میں رہتے ہوئے ماضی کا چکر لگا لیا۔

پارسی کالونی

اب گاڑی کا رخ کترک پارسی کالونی کی طرف تھا جو سولجر بازار جمشید کوارٹرز میں واقع ہے ۔ وہاں پہنچتے ہی یوں لگا گویا ہم کراچی میں نہیں ہیں، ہر سو خاموشی اور سکون تھا نہ 
ٹریفک نہ لوگوں کا ہجوم، وہاں بڑے بڑے بنگلے تھے مگر اپنی حالت پر نوحہ کناں کیونکہ


 ان بنگلوں پر جو یقیناً کبھی شاندار رہے ہونگے اب چند کو چھوڑ کرباقی دھول و مٹی میں اٹے پڑے تھے برسوں سے ان کی نہ مرمت ہوئی ہے نہ رنگ و روغن کیا گیا ہے۔ ہر سو ایک حسرت بھری خاموشی گونج رہی تھی۔جب پاکستان بنا تو کراچی میں پارسیوں کی خاصی آبادی تھی ان کے بڑے کاروبار تھے اور وہ سیاست میں بھی حصہ لیتے تھے جیسے جمشید نسروانجی جہانگیر کوٹھاری

وغیرہ تھے۔ آج کراچی میں پارسی بہت کم رہ گئے ہیں ان میں بھی بڑے کاروبار ی غالباً صرف بہرام ڈھنشوجی آواری ہیں۔ نئی نسل تقریباً پاکستان سے جا چکی ہے کچھ بوڑھے رہ گئے ہیں جو آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں اب ان کی تعداد صرف چند ہزا رہی رہ گئی ہے، ایک اندازے کے مطابق 2030ء کے بعد شاید پاکستان میں کوئی پارسی نہیں ملیگا۔ اسی جگہ ایک پارک بھی تھا مگر اس کا دروازہ مقفل تھا ہم نے سلاخوں سے دیکھا توایک چھوٹا مگر
خوبصورت پارک نظر آیا، یقیناًیہاں شام کو بزرگ جمع ہو کر ہواخوری کرتے ہوں گے اور باتوں میں وقت گزارتے ہونگے۔ یہاں ایک آنکھوں کا ہسپتال بھی نظر آیا بورڈ پر ڈاکٹر ایس ڈی انکلسریا آئی ہسپتال لکھا تھا۔ مگر بورڈ کی حالت خاصی بری تھی رنگ اڑ چکا تھا اور زنگ آلود تھا، جبکہ ایک چھوٹا بورڈ قدرے بہتر حالت میں تھا۔ صدر میں واقع انکلسریا ہسپتال بھی ایک تاریخی عمارت ہے جسے ڈاکٹر برجر انکلسریا اورگلبانو نے بنوایا تھا۔



1 comment:

  1. دوبارہ پڑھ کر ایک نیا مزہ آیا۔۔۔۔۔اس سلسلہ کو دراز کریں۔اور کچھ بھی لکھیں

    ReplyDelete