جوناگڑھ ہاؤس اور نواب
صاحب سے ملاقات
کچھ آگے بڑھے تو دفعتاً زبیر نے ایک سبز رنگ کے گیٹ کے سامنے بریک لگا دیا جس پر
میں جواب دیا تو ہم نے اپنا تعارف
کروایا کہ ہم بیرون ملک سے آئے ہیں اورنواب صاحب سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں گارڈ نے
نوبزادہ صاحب سے رابطہ کر کے ہم سے بات کروائی ہم نے اپنے بارے میں بتایا اور صاف کہہ
دیا کہ ہم ملنا چاہتے ہیں مگر ہم چونکہ اچانک بغیر کسی پیشگی پروگرام کے آئے ہیں اس
لیے باضابطہ طور پر وقت نہیں لیا ہوا تو اگرملاقات ممکن ہو تو ہمارے لیے باعث صد افتخارہو
گی، انہوں نے اپنا اطمینان کر کے ہمیں آنے کی اجازت دی۔ ہمیں اندر ڈرائنگ روم میں بٹھایا
گیا کچھ دیر بعد نواب محمد جہانگیر خانجی صاحبتشریف لے آئے۔ ہم نے حیرت سے دیکھا
کہ ہمارے سامنے جو شخصیت تھی وہ سادگی اوروقارکا
مرقع تھی، جس میں غرور و تکبر کا نام و نشان تک نہ تھا،پھر ان کا انداز گفتگو ،ذرا
ہی سی دیر میں یوں محسوس ہو رہا تھا گویا ہم انہیں برسوں سے جانتے ہوں۔ کچھ ذاتی گفتگو
ہوئی کچھ جوناگڑھ سٹیٹ کے بارے میں ہوئی چونکہ وہ گفتگو آؤٹ آف ریکارڈ ہے اس لیے ہم
یہاں تحریر نہ کرتے ہوئے آپ کو جونا گڑھ کے بارے میں مختصراً بتاتے ہیں۔یہ ریاست کاٹھیاواڑ میں بحیرۂ عرب کے کنارے پوربندر اور امریلی کے درمیان واقع ہے، یہ ریاست مغلوں کے زمانے میں نواب صاحب کے اجداد کو دی گئی تھی جب مغل سلطنت کمزور ہو گئی تو بہت سی اور ریاستوں کی طرح جونا گڑھ نے بھی آزادی کا اعلان کر دیا اور اٹھارویں صدی سے ایک آزاد ریاست کے طور پر رہی یہاں تک کہ ہندوستان نے 1947ء اس پر غاصبانہ قب

بھٹو کے والد اور بینظیر بھٹو کے دادا تھے۔ تب سے اقوام متحدہ میں یہ کیس موجود ہے مگر کشمیر کی طرح یہ مسئلہ بھی ہنوز التواء کا شکار ہے۔ نواب صاحب نے اپنے صاحبزادے سے ملوایا جن کا نام نوابزادہ علی مختار خانجی ہے۔ایک خوبصورت اور ناقابل فراموش ملاقات کی خوشگوار یادوں کے ساتھ ہم نے نواب صاحب سے رخصت مانگی اور وہاں سے نکل آئے۔
No comments:
Post a Comment