Friday, January 15, 2016

ایک دن کلاچی کے ساتھ قسط 5

جوناگڑھ ہاؤس اور نواب صاحب سے ملاقات


کچھ آگے بڑھے تو دفعتاً زبیر نے ایک سبز رنگ کے گیٹ کے سامنے بریک لگا دیا جس پر
مخصوص نشان بنا ہوا تھا (بعد میں پتا چلا کہ یہ ریاست جوناگڑھ کا شاہی نشان ہے)، اور ہم سے کہا پتہ ہے یہ کونسی جگہ ہے، ہم نے لاعلمی ظاہر کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ نواب آف جوناگڑھ کی رہائش گاہ ہے۔ ہم نے اس بارے میں سنا ہوا تھا اور تھورا بہت جونا گڑھ کے بارے میں پڑھا ہوا بھی تھا، ہم نے زبیر سے پوچھا کیانواب صاحب سے ملاقات ممکن ہے وہ بولے کچھ کہہ نہیں سکتے تو ہم نے گیٹ پر موجود گارڈ سے بات کی، ہم نے استفسار کیا کیا نواب صاحب تشریف رکھتے ہیں گارڈ نے اثبات 
میں جواب دیا تو ہم نے اپنا تعارف کروایا کہ ہم بیرون ملک سے آئے ہیں اورنواب صاحب سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں گارڈ نے نوبزادہ صاحب سے رابطہ کر کے ہم سے بات کروائی ہم نے اپنے بارے میں بتایا اور صاف کہہ دیا کہ ہم ملنا چاہتے ہیں مگر ہم چونکہ اچانک بغیر کسی پیشگی پروگرام کے آئے ہیں اس لیے باضابطہ طور پر وقت نہیں لیا ہوا تو اگرملاقات ممکن ہو تو ہمارے لیے باعث صد افتخارہو گی، انہوں نے اپنا اطمینان کر کے ہمیں آنے کی اجازت دی۔ ہمیں اندر ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا کچھ دیر بعد نواب محمد جہانگیر خانجی صاحبتشریف لے آئے۔ ہم نے حیرت سے دیکھا
  کہ ہمارے سامنے جو شخصیت تھی وہ سادگی اوروقارکا مرقع تھی، جس میں غرور و تکبر کا نام و نشان تک نہ تھا،پھر ان کا انداز گفتگو ،ذرا ہی سی دیر میں یوں محسوس ہو رہا تھا گویا ہم انہیں برسوں سے جانتے ہوں۔ کچھ ذاتی گفتگو ہوئی کچھ جوناگڑھ سٹیٹ کے بارے میں ہوئی چونکہ وہ گفتگو آؤٹ آف ریکارڈ ہے اس لیے ہم یہاں تحریر نہ کرتے ہوئے آپ کو جونا گڑھ کے بارے میں مختصراً بتاتے ہیں۔
یہ ریاست کاٹھیاواڑ میں بحیرۂ عرب کے کنارے پوربندر اور امریلی کے درمیان واقع ہے، یہ ریاست مغلوں کے زمانے میں نواب صاحب کے اجداد کو دی گئی تھی جب مغل سلطنت کمزور ہو گئی تو بہت سی اور ریاستوں کی طرح جونا گڑھ نے بھی آزادی کا اعلان کر دیا اور اٹھارویں صدی سے ایک آزاد ریاست کے طور پر رہی یہاں تک کہ ہندوستان نے 1947ء اس پر غاصبانہ قب
ضہ کر لیا۔ یہ ایک خوشحال ریاست تھی جس کے خزانے بھرے
ہوئے تھے، اس کا رقبہ 3336 مربع میل تھا، یہ امیر اور زرخیز زمین تھی، اس ریاست میں چوراسی میل سمندری ساحل شامل تھا جس میں خوبصورت اور چمکدار سنہری ریت پر مشتمل بیچ بھی تھے۔ یہاں سولہ پورٹس تھیں اور 999 شہر، گاؤں اور قصبے تھے۔ دارالحکومت جوناگڑھ نامی شہر ہے جو گرنار اور داتھر نامی پہاڑیوں کی ڈھلانوں پر واقع ہے، یہاں خوبصورت ودلچسپ غار ہیں اورمہاراج اشوک نے جو نقوش کالے گرینائٹ پر کھدوائے تھے وہ بھی یہیں ہیں، گرنار کی پہاڑیوں کے دامن میں
گر نامی وسیع جنگل ہے جو494 مربع میل پر مشتمل ہے، جہاں جوناگڑھ کی مشہور جنگلی حیات پائی جاتی ہے جن میں ایشیائی ببر شیر بھی شامل ہیں۔ یہاں بارش کا اوسط تیس سے پینتیس انچ سالانہ ہے۔ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہونے کے بعد اس وقت کے نواب مہابت خانجی صاحب جو موجودہ نواب صاحب کے دادا تھے پاکستان تشریف لائے مقصد تھا کہ جوناگڑھ کا الحاق پاکستان سے کر دیا جائے ، اس سلسلے میں نواب صاحب اور قائد اعظم کے درمیان پندرہ ستمبر 1947ء کو معاہدہ ہو گیاکہ جوناگڑھ اب پاکستان کا حصہ ہے مگر نہرو نے کشمیر کی طرح جوناگڑھ پر بھی زبردستی قبضہ کر لیا ، ہندوستانی فوج 9 نومبر 1947ء کو جوناگڑھ میں داخل ہو گئی۔اس وقت وہاں کے دیوان یعنی وزیر اعظم سر شاہنواز بھٹو تھے جو ذوالفقار علی


بھٹو کے والد اور بینظیر بھٹو کے دادا تھے۔ تب سے اقوام متحدہ میں یہ کیس موجود ہے مگر کشمیر کی طرح یہ مسئلہ بھی ہنوز التواء کا شکار ہے۔
نواب صاحب نے اپنے صاحبزادے سے ملوایا جن کا نام نوابزادہ علی مختار خانجی ہے۔ایک خوبصورت اور ناقابل فراموش ملاقات کی خوشگوار یادوں کے ساتھ ہم نے نواب صاحب سے رخصت مانگی اور وہاں سے نکل آئے۔

No comments:

Post a Comment