Friday, January 15, 2016

ایک دن کلاچی کے ساتھ قسط 6

جہانگیر کوٹھاری پریڈ


پہلے ان سیڑھیوں کی تعداد اتنی نہیں تھی یہ کراچی گورنمنٹ نے اضافہ کیا ہے۔ اس کی تاریخ
کچھ یوں ہے کہ بمبئی کے گورنر سرجورج لوئڈ کی بیگم لیڈی لوئڈ پیئر کو یہ جگہ پسند آئی تھی اور اس نے یہاں گھاٹ اور پریڈ بنانے کے لیے جناب جہانگیر کوٹھاری سے کہا۔ جہانگیر کوٹھاری چیمبر آف کامرس کے ممبر بھی تھے انہوں نے تین لاکھ روپے خرچ کر کے یہ یادگار بنا کر کراچی کے شہریوں کو عطیہ کر دی۔اس کی تعمیر 1919ء میں شروع ہوئی اور 1920ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ افتتاح لیڈی لوئڈ نے خود اپنے ہاتھ سے کیا۔اب اس میں توسیع کر دی گئی ہے اور سیڑھیاں کافی دور تک جاتی ہیں۔









جمشید نسروانجی بلڈنگ

کراچی کھارادر میں بانکڑا ہوٹل کے سامنے یہ بلڈنگ ایک سو سال سے کھڑی تھی، مالکان

نے اس کو 1991ء میں فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا کہ خریدنے والا اس کو توڑ کر یہاں کوئی بڑی شاندار بلڈنگ یا مال کھڑا کر دے گا۔ انھی دنوں انڈس ویلی سکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر والوں کو اپنے پلاٹ واقع کلفٹن پر کیمپس بنانے کا خیال آیا، وہ کوئی ایسا ڈیزائن چاہتے تھے جو آرکیٹیکچر کا شاہکار ہو۔ چند ہی دنوں بعد انڈس ویلی کے بانیوں میں سے ایک شاہد عبداللہ نے خوشی سے اعلان کیا کہ مجھے ایک خوبصورت پرانی عمارت مل گئی ہے جو کھارادر میں ہے اور برائے فروخت ہے ہم اس کو ضائع ہونے سے بچائیں گے اور اپنے پلاٹ پر منتقل کریں گے۔ یہ پتھروں سے بنی ہوئی تین منزلہ عمارت ہے جو دو بلاکس پر مشتمل ہے۔
اس کی تعمیر 1903ء میں جمشید کے والد نسروانجی رستم جی مہتا نے کروائی تھی ، انہوں نے اسے اپنی کمپنی کے آفسز اور گوداموں کے طور پر استعمال کیا بعد ازاں جمشید نسروانجی نے 1919ء میں اس کا دوسرا بلاک بنوایاجو آر سی سی سے بنوایا گیا۔
جب اس عمارت کو خریدنے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلا سوال آیا کہ کیا اس کی منتقلی ممکن ہے؟ اس سلسلے میں مختلف آراء آئیں کسی نے ماہرین کو بلانے کا کہا کسی نے یونیسکو سے

رجوع کرنے کا مشورہ دیا الغرض آخر میں فیصلہ ہوا کہ ہمیں خودانحصاری سے کام لینا ہے۔ کام شروع ہوا پہلے اس کی ڈرائینگز بنائی گئیں نقشے تیار ہوئے بیشمار تصویریں اتاری گئیں ۔ پھر تین بڑی کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا کہ اس کو محفوظ طریقہ سے توڑ کر منتقل کرنا ہے اور وقت بھی بچانا ہے۔ قرعہ فال حاجی محمدشاہ اکرم بلوچ کے نام نکلا صرف اس لیے نہیں کہ انہوں نے کم پیسے لگائے تھے بلکہ اس لیے کہ انہوں نے سب کچھ دیکھ کر اور سوچ سمجھ کر ایک حکمت عملی بنائی تھی اس پورے عمل کے لیے تین مہینے مختص کیے گئے،مگر جائداد منتقلی وغیرہ کے عمل میں تین سال گزر گئے تھے۔ اس دوران انڈس سکول کا کیمپس تعمیرہو چکا تھا جس میں نسروانجی بلڈنگ کے لیے خاص جگہ مختص کر دی گئی تھی۔ بلآخر اپریل 1995ء میں کام شروع کیا گیا ایک ایک پتھر ایک ایک لکڑی کے ٹکڑے پر نمبر ڈالے گئے اور سب چیزوں کو محفوظ طریقہ
سے نکال کر منتقلی کا عمل شروع ہوا۔یہ کام دنیا میں کوئی پہلی بار نہیں ہوا اس سے پہلے بھی عمارتیں منتقل کی گئی ہیں خاص طور پر مصر میں ایک ہرم کی عمارت کو اپنی جگہ سے جہاں پانی آ گیا تھا ایک دوسری بلند و محفوظ جگہ منتقل کیا جا چکا ہے یہ سارا عمل ہائی کوالیفائیڈ ماہرین کی زیر نگرانی ان مزدوروں نے کیا جنہیں خاص تربیتی عمل سے گزارا گیا تھا مگر یہاں خاص بات یہ تھی کہ یہ کام ان پڑھ مزدوروں نے اور ناتجربہ کار ٹیم نے مل کر ایسے کیا کہ 26000 پتھروں میں سے صرف پچاس پتھر ٹوٹے یا خراب ہوئے جنہیں تبدیل کر دیا گیا۔ روزانہ جتنے پتھر یا لکڑی کے ٹکڑے اکھاڑے جاتے تھے انہیں احتیاط سے ٹرکوں میں بھر کر کلفٹن پہنچایا جاتا تھا۔ جہاں انہیں دوبارہ نقشہ کے مطابق جوڑا جاتا تھا، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس ٹیم کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے کہ جنہوں نے اتنی بڑی ذمہ داری اٹھائی اور اسے بخوبی پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ آج یہ عمارت کلفٹن میں شان سے سر اٹھائے کھڑی ہے اس میں سٹوڈیوز کے علاوہ نمائشی ہال اور آرٹ گیلری بھی ہے۔


آج کا سفر تمام ہوا۔ قارئین سے التماس ہے کہ ماضی کو کچرا سمجھ کر نہ پھینک دیں ان جگہوں کی اہمیت سمجھیں اور ان کا وزٹ ضرور کریں.

آخر میں پرانی کراچی کی چند تصاویر








ایک دن کلاچی کے ساتھ قسط 5

جوناگڑھ ہاؤس اور نواب صاحب سے ملاقات


کچھ آگے بڑھے تو دفعتاً زبیر نے ایک سبز رنگ کے گیٹ کے سامنے بریک لگا دیا جس پر
مخصوص نشان بنا ہوا تھا (بعد میں پتا چلا کہ یہ ریاست جوناگڑھ کا شاہی نشان ہے)، اور ہم سے کہا پتہ ہے یہ کونسی جگہ ہے، ہم نے لاعلمی ظاہر کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ نواب آف جوناگڑھ کی رہائش گاہ ہے۔ ہم نے اس بارے میں سنا ہوا تھا اور تھورا بہت جونا گڑھ کے بارے میں پڑھا ہوا بھی تھا، ہم نے زبیر سے پوچھا کیانواب صاحب سے ملاقات ممکن ہے وہ بولے کچھ کہہ نہیں سکتے تو ہم نے گیٹ پر موجود گارڈ سے بات کی، ہم نے استفسار کیا کیا نواب صاحب تشریف رکھتے ہیں گارڈ نے اثبات 
میں جواب دیا تو ہم نے اپنا تعارف کروایا کہ ہم بیرون ملک سے آئے ہیں اورنواب صاحب سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں گارڈ نے نوبزادہ صاحب سے رابطہ کر کے ہم سے بات کروائی ہم نے اپنے بارے میں بتایا اور صاف کہہ دیا کہ ہم ملنا چاہتے ہیں مگر ہم چونکہ اچانک بغیر کسی پیشگی پروگرام کے آئے ہیں اس لیے باضابطہ طور پر وقت نہیں لیا ہوا تو اگرملاقات ممکن ہو تو ہمارے لیے باعث صد افتخارہو گی، انہوں نے اپنا اطمینان کر کے ہمیں آنے کی اجازت دی۔ ہمیں اندر ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا کچھ دیر بعد نواب محمد جہانگیر خانجی صاحبتشریف لے آئے۔ ہم نے حیرت سے دیکھا
  کہ ہمارے سامنے جو شخصیت تھی وہ سادگی اوروقارکا مرقع تھی، جس میں غرور و تکبر کا نام و نشان تک نہ تھا،پھر ان کا انداز گفتگو ،ذرا ہی سی دیر میں یوں محسوس ہو رہا تھا گویا ہم انہیں برسوں سے جانتے ہوں۔ کچھ ذاتی گفتگو ہوئی کچھ جوناگڑھ سٹیٹ کے بارے میں ہوئی چونکہ وہ گفتگو آؤٹ آف ریکارڈ ہے اس لیے ہم یہاں تحریر نہ کرتے ہوئے آپ کو جونا گڑھ کے بارے میں مختصراً بتاتے ہیں۔
یہ ریاست کاٹھیاواڑ میں بحیرۂ عرب کے کنارے پوربندر اور امریلی کے درمیان واقع ہے، یہ ریاست مغلوں کے زمانے میں نواب صاحب کے اجداد کو دی گئی تھی جب مغل سلطنت کمزور ہو گئی تو بہت سی اور ریاستوں کی طرح جونا گڑھ نے بھی آزادی کا اعلان کر دیا اور اٹھارویں صدی سے ایک آزاد ریاست کے طور پر رہی یہاں تک کہ ہندوستان نے 1947ء اس پر غاصبانہ قب
ضہ کر لیا۔ یہ ایک خوشحال ریاست تھی جس کے خزانے بھرے
ہوئے تھے، اس کا رقبہ 3336 مربع میل تھا، یہ امیر اور زرخیز زمین تھی، اس ریاست میں چوراسی میل سمندری ساحل شامل تھا جس میں خوبصورت اور چمکدار سنہری ریت پر مشتمل بیچ بھی تھے۔ یہاں سولہ پورٹس تھیں اور 999 شہر، گاؤں اور قصبے تھے۔ دارالحکومت جوناگڑھ نامی شہر ہے جو گرنار اور داتھر نامی پہاڑیوں کی ڈھلانوں پر واقع ہے، یہاں خوبصورت ودلچسپ غار ہیں اورمہاراج اشوک نے جو نقوش کالے گرینائٹ پر کھدوائے تھے وہ بھی یہیں ہیں، گرنار کی پہاڑیوں کے دامن میں
گر نامی وسیع جنگل ہے جو494 مربع میل پر مشتمل ہے، جہاں جوناگڑھ کی مشہور جنگلی حیات پائی جاتی ہے جن میں ایشیائی ببر شیر بھی شامل ہیں۔ یہاں بارش کا اوسط تیس سے پینتیس انچ سالانہ ہے۔ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہونے کے بعد اس وقت کے نواب مہابت خانجی صاحب جو موجودہ نواب صاحب کے دادا تھے پاکستان تشریف لائے مقصد تھا کہ جوناگڑھ کا الحاق پاکستان سے کر دیا جائے ، اس سلسلے میں نواب صاحب اور قائد اعظم کے درمیان پندرہ ستمبر 1947ء کو معاہدہ ہو گیاکہ جوناگڑھ اب پاکستان کا حصہ ہے مگر نہرو نے کشمیر کی طرح جوناگڑھ پر بھی زبردستی قبضہ کر لیا ، ہندوستانی فوج 9 نومبر 1947ء کو جوناگڑھ میں داخل ہو گئی۔اس وقت وہاں کے دیوان یعنی وزیر اعظم سر شاہنواز بھٹو تھے جو ذوالفقار علی


بھٹو کے والد اور بینظیر بھٹو کے دادا تھے۔ تب سے اقوام متحدہ میں یہ کیس موجود ہے مگر کشمیر کی طرح یہ مسئلہ بھی ہنوز التواء کا شکار ہے۔
نواب صاحب نے اپنے صاحبزادے سے ملوایا جن کا نام نوابزادہ علی مختار خانجی ہے۔ایک خوبصورت اور ناقابل فراموش ملاقات کی خوشگوار یادوں کے ساتھ ہم نے نواب صاحب سے رخصت مانگی اور وہاں سے نکل آئے۔

ایک دن کلاچی کے ساتھ قسط 4

فری میسنز لاج


ہم پی آئی اے کے دفتر کے سامنے وائی ایم سی اے گراؤنڈ کی لائن میں واقع اس عمارت میں پہنچے جس پر محکمہ جنگلی حیات کا بورڈ آویزاں ہے۔ اندر پہنچ کر ہماری نظر ایک تختی پر پڑی جس پر دجال کا نشان بنا ہوا تھا، یہ عمارت 1914ء میں فری میسنز ٹرسٹ نے بنائی تھی اور انہوں نے اس کو جادوگھر کا نام دیا تھا۔ اس عمارت کو فری میسنز نے کئی
برس اپنے اجتماعات کے لیے استعمال کیا، اسوقت مقامی لوگوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہاں کیا سرگرمیاں ہو رہی ہیں، بلآخر 1972ء میں پاکستان میں فری میسنز پر پابندی عائد کر دی گئی اور یہ عمارت حکومت نے اپنے قبضہ میں لے لی جسے بعد ازاں محکمۂ جنگلی حیات کو دے دیا گیا۔یہاں اب بھی کئی جگہ تختیوں دیواروں اور لکڑی پر فری میسنز کا مخصوص نشان کندہ ہے اور اس عمارت کے بارے میں لکھا ہے۔۔

قائد اعظم ہاؤس میوزیم

یہ سٹاف فلیگ ہاؤس کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ میوزیم میٹروپول ہوٹل کے عقب میں ہے۔
یہ مکان انیسویں صدی کے آخر میں بنایا گیا تھا اور اس کی ملکیت 1922ء تک رام چند کچھی لوہانا کے پاس تھی۔ 1940ء سے برٹش انڈین آرمی نے اسے کرائے پر لے کر اپنے سینئر آفیسرز کو رہائش کے لیے دے دیا۔، جن میں جنرل ڈگلس ڈی گریسی بھی شامل تھے جو آزادی کے بعد پاکستان روئل آرمی کے سربراہ بنے تھے۔، اسی لیے اس کو فلیگ سٹاف ہاؤس کے نام سے موسوم کیا گیا۔ یہ مکان قائد اعظم کی ملکیت میں 1943ء میں آیا جب اسے کراچی کے ایک سابق میئر سے ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے میں خریدا گیا۔ ستمبر 1947ء میں قائد اعظم کا سامان ۱۰اورنگزیب روڈ دہلی سے یہاں منتقل کیا گیا۔ قائد اعظم نے اس کو گورنر جنرل ہاؤس کے طور پر استعمال کیا۔ 31 ستمبر 1948ء کو قائد اعظم کی رحلت کے بعد محترمہ فاطمہ جناح یہاں منتقل ہو گئیں اور اس کو خاندانی رہائش کی حیثیت دیدی گئی۔ فاطمہ جناح یہاں 1964ء تک رہائش پذیر رہیں پھر وہ موہٹا پیلس یا قصر فاطمہ منتقل ہو گئیں، تاہم قائد کی بہن محترمہ شیریں بائی اپنی وفات تک یہاں رہیں ان کے بعد یہ مکان قائداعظم ٹرسٹ نے سنبھال لیا۔ 1985ء میں یہ مکان حکومت پاکستان نے ٹرسٹ سے خرید لیا اوراس کو قائد اعظم ہاؤس کا نام دیکر بطور میوزیم عوام کے لیے 25 نومبر 1993ء کو کھول دیا گیا۔ ہم یہاں چار بجے پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ میوزیم کا وقت چار بجے ختم ہو جاتا ہے۔ خیر یہ پہلے بھی دیکھا ہوا ہے اس لیے ہم آگے بڑھ گئے۔

موھٹا پیلس

اب ہم اولڈ کلفٹن پر واقع موھٹا پیلس کے سامنے تھے وقت تنگ تھا مگر ہمیں ٹکٹ مل گئے۔یہ
محل نما بنگلا راجھستان کے مشہور تاجر شو رتن موھٹا نے 1927ء میں بر صغیر کے پہلے مسلمان آرکیٹکٹ آغا احمدحسین کے تیار کردہ ڈیزائن پر بنوایا تھا، آغا احمد حسین کا تعلق جے پور سے تھا وہ میونسپل کارپوریشن میں چیف سرویئر تھے انہوں نے جے پور کے فن تعمیر کے زیر اثر اسے اینگلو مغلیہ انداز میں بنایا۔ آزادی کے بعد حکومت پاکستان نے اس میں وزارت خارجہ کا دفتر قائم کر دیا، جب اسلام آباد دارالحکومت بن گیا اور دفاتر وہاں منتقل ہو گئے تو یہ عمارت محترمہ فاطمہ جناح کو رہائش کے لیے دے دی گئی۔ وہ یہاں اپنی وفات 1967ء تک رہیں ان کے بعد یہ جائیداد ان کی بہن شیریں جناح کو مل گئی تاہم ان کے انتقال کے بعد یہ متنازعہ جائیداد کی حیثیت 
اختیارکر گئی اور لاوارث عمارات کے زمرے میں آ گئی۔ 1995ء میں اسے سندھ حکومت کی مدد سے حکومت پاکستان نے باقاعدہ خرید کر ایک خود مختار بورڈ آف ٹرسٹیز کے حوالے کر دیا تاکہ اسے پاکستانی ورثہ کا میوزیم بنایا جا سکے۔ 15 ستمبر 1995ء کوتالپور حکمرانوں کے نوادرات سے اس کا افتتاح کیا گیا۔ تب سے اب تک یہاں مختلف نمائشوں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ کہتے ہیں جب مستقل نوادرات مل جائیں گے تو اسے بھی مستقل میوزیم کی حیثیت دے دی جائے گی،ہمارے خیال سے تو یہ ایک لطیفہ ہی ہے ایں خیال است محال است و جنوں است کیونکہ پاکستان چوک پر واقع نیشنل میوزیم کی تباہی اوردن دھاڑے ڈکیتی کو دیکھتے ہوئے کیا امید کی جا سکتی ہے۔ جب محافظ ہی ڈاکو بن جائیں یا یوں کہہ لیجیے کہ آپ ڈاکووؤں کو اپنا محافظ منتخب کر لیں گے تو ان سے اور کیا امید کی جا سکتی ہے۔
موھٹا پیلس کے عقبی حصہ میں چند بت رکھے ہیں جو انگریزوں کے دور میں سڑکوں پر آویزاں رہے ہوں گے ان میں ملکہ وکٹوریہ کا بت بھی شامل ہے۔ ارے یہ کیا ہے اچانک ہماری نظروں کے سامنے ہمارا بچپن گھومنے لگا یہ ہم نے کیا دیکھ لیا۔۔۔ جی وہاں دو شیروں کے
دھاتی مجسمے رکھے ہوئے تھے اور ان مجسموں سے ہمارا بچپن جڑا ہوا تھا۔ یہ مجسمے چڑیا گھر میں لگے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں وہیں دیکھا تھا اور نہ صرف دیکھا ہی تھا بلکہ متعدد بار ان پر سوار ہوئے ہیں ہم نے ان پر چڑھ کر تصویریں بنوائی ہیں اب یہ یہاں رکھے ہیں، آج کیفے مبارک نے ہمیں لڑکپن کی سیر کروائی تھی مگر ان شیروں نے تو ہمیں بچپن میں پہنچا دیا۔ ہمارے کانوں میں آنجہانی جگجیت سنگھ جی کی ریشمی آواز گونجنے لگی، یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو، بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی، مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون ،وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی۔

شری رتنیسور مہادیو مندر

ہم اب کلفٹن پر ہیں ، یہاں یہ قدیم مندر ہے جو قریب 150 سال پرانا ہے اور آج بھی یہاں پوجا ہوتی ہے۔ہم نے اندر جانے کا پوچھا تو جواب ملا کہ ابھی پوجا ہو رہی ہے اگر آپ اندر جانا چاہتے ہیں تو منگل کی صبح کو آ جائیں ویسے اجازت نہیں ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے موجودہ کام کی وجہ سے یہ مندر اورجہانگیر کوٹھاری پریڈ وغیرہ کو خطرہ پیدا ہو گیا تھا کیونکہ تاریخی آثار سے ایک مخصوص فاصلہ چھوڑ کر کام کیا جا سکتا ہے تاکہ ان آثار کو نقصان نہ پہنچے مگر یہ پاکستان ہے اور کام بحریہ ٹاؤن کا ہے ۔جب اس مندر میں کریک پڑنے کی شکایات آئیں جس پر میڈیا اور سول سوسائیٹی نے فوری ایکشن لیا اور سندھ ہائی کورٹ نے آرڈر جاری کیا ورنہ شاید یہاں کچھ نہ بچتا۔

پلے لینڈ ، فن لینڈ اور ماہی خانہ

ہر طرف ملک ریاض کی پھیلائی ہوئی مٹی اڑ رہی ہے۔سامنے دیکھا تو پتہ چلا کہ اب یہاں
پلے لینڈ نامی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس پر جو دکھ ہم نے محسوس کیا وہ بیان سے باہر ہے ۔ ہماری طرح جن لوگوں کی بچپن کی یادیں پلے لینڈ سے جڑی ہوں گی وہی اس دکھ کو محسوس کر سکتے ہیں ہم اپنے بچپن میں یہاں آیا کرتے تھے جب کچھ بڑے ہوئے تو بہن بھائیوں کو لانا شروع کیا،بڑی یادیں وابستہ ہیں یہاں سے اورآج ۔ ۔۔۔۔آج یہاں صرف مشینوں کی گھڑگھڑاہٹ ہے اور چاروں طرف اڑتی ہوئی مٹی ہے، پلے لینڈ کی جگہ ایک خالی قطعہ زمین ہے۔ کاش اس لینڈ مارک کو یوں تباہ نہ کیا جاتا جس سے کئی لوگوں کی جذباتی وابستگی ہے۔ مگر شاید آج جذبات کچھ نہیں صرف پیسہ ہی سب کچھ ہے اور ملک ریاض صاحب ان
کی نظر میں کنکریٹ کا جنگل ہی سب سے بہتر ہے جس سے ان کے بنک اکاؤنٹس اور تجوریوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔۔خیر ان کی بات چھوڑیں اور تھوڑا لکھے کو بہت جانیں۔ یہاں فن لینڈ ہوا کرتا تھا جسے کچھ فاصلے پر لے جایا گیا ہے۔ اور یہ ماہی خانہ ہے جی ہمارا مطلب ہے ایکوریم ۔ بھئی یہ ایکوریم تو بہت بعد میں ہوا ہے ہم تو بچپن میں ماہی خانہ دیکھنے

جاتے تھے اور اس شوق میں اتنی بہت سی سیڑھیاں چڑھتے تھے۔ ان سیڑھیوں پرہر وقت لوگوں کا جھمگٹا لگا رہتا تھا یہاں ہم نے ایک نوجوان کو پھول بیچتے دیکھا تھا اب تو وہ بزرگ ہو چکا ہو گا مگر یہ برسوں پرانی بات ہے وہ پھول بیچتا تھا اور لوگوں کی فرمائش پر کبھی الاپ اور کبھی گانے سناتا تھا بہت ہی اچھی آواز کا مالک تھا اور سریلا بھی تھا۔ اب نہ جانے کہاں ہو گا ہماری درخواست ہے کہ اگر یہ سطریں اس کی نظرسے گزریں تو شہر خیال میں کچھ اپنے بارے میں بتائے۔

ایک دن کلاچی کے ساتھ قسط 3

ایمپرس مارکیٹ





یہ صدر کا مشہور ترین اور پرہجوم مقام ہے۔یہ مارکیٹ انگریز دور میں 1884ء سے1889ء کے دوران تعمیر ہوئی اس کا نام ملکہ وکٹوریہ ایمپریس آف انڈیا کے لقب پر رکھا گیا۔ اس کی تعمیر کے لیے خوب سوچ سمجھ کر یہ جگہ چنی گئی تھی جہاں کوئی تعمیرات نہیں تھیں اس وقت یہ مارکیٹ دور سے واضح نظر آتی تھی ۔ یہی وہ مقام تھا جہاں 1857ء میں بغاوت کرنے والے سپاہیوں کو بڑی بے رحمی کے ساتھ موت کی سزائیں دی گئی تھیں،تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں، ان کوسر عام توپ کے گولوں سے اڑایا گیا تھاتاکہ کوئی اور بغاوت کا سوچ بھی نہ سکے۔اس کی بنیاد بمبئی کے گورنرجیمس فرگوسن نے 1884ء میں رکھی تھی، اسی نے میری ویدر ٹاور جسے اب صرف ٹاور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کی بنیادبھی رکھی تھی ۔ اس کا ڈیزائن جیمس سٹریچن نے بنایا تھا اوربنیاد ایک انگریزی فرم اے جے اٹفیلڈ نے بنائی جبکہ عمارت کی تعمیر ایک مقامی فرم محمود نوان اینڈ دولو کھیجو نے کی ۔ اس میں قریب دو سو اسی دکانوں اور سٹالز کی گنجائش رکھی گئی تھی اور قریب ہی ایک تفریحی پارک بھی بنایا گیا تھا، یوں سمجھیں یہ اس دور کا ایک شاپنگ مال تھا جہاں خریدار کو اپنی ضرورت کی تقریباً ہر چیز مل جاتی تھی،اور صرف یہی نہیں انگریزوں نے ایسی سات مارکیٹیں یا مالز کراچی میں مختلف مقامات پر بنائی تھیں٫


گلبائی میٹرنیٹی ہوم


ایمپرس مارکیٹ کی لائن میں صدر کی طرف بڑھیں تو کچھ آگے ایک پرانی عمارت آپ کو نظر آتی ہے، یہ گلبائی نسروانجی مہتا پارسی میٹرنیٹی ہوم ہے جو جناب جمشید نسروانجی نے تعمیر کروایاتھا، احاطہ میں فوارہ کے پاس لگی ایک کتاب نما تختی پر لکھا ہے جمشید نسروانجی نے اپنے والد رستم نسروانجی مہتا کی یاد میں 1920ء میں بنوایا۔ میٹرنیٹی ہوم کا سنگ بنیاد 1917ء میں رکھا گیا اور 1919ء میں اس کا افتتاح مسز جے ایل ریونے کیا۔ یہاں خان بہادر نسروانجی مہتا کی یادگار بھی بنائی گئی ہے۔احاطہ میں گھومتے ہوئے ہم عمارت کے عقب میں پہنچے تو دیکھا وہاں دو چھوٹی عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور وہاں لوگ رہائش پذیر ہیں، ان

سے بات کی تو ان کا بیان تھا کہ یہ عمارتیں ہسپتال کے سٹاف کے لئے بنائی گئی تھیں جو بعد میں ان کو مستقل رہائش کے لئے دے دی گئیں اور یہ لوگ ان ہی کی اولادمیں سے ہیں۔

رتن تلاؤ ۔اردو بازار۔برنس روڈ



یہاں اب بھی بہت سی انگریز دور کی عمارات ہیں ایک عمارت جو اندر کے روڈ پر ہے اس پر ہندوستان کے جھنڈے بنے ہوئے ہیں اور ہندی زبان میں سوراج بھون لکھا ہوا ہے۔ اردو بازار میں ایک عمارت ہے جس کی گیلریوں کی جالی پر گاندھی کی تصویریں بنی ہوئی ہیں، اور بھی کافی پرانی عمارتیں یہاں موجود ہیں کسی پر ہندو نام لگے ہیں کسی پر دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں بنی ہوئی ہیں۔
اوہ یہ کیا وہ اکیلا کھڑا ہے اداس درماندہ خستہ حال جی ہاں یہ ایک لیٹر بکس ہے جسے

دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں آج برسوں بعد یہاں نظرآیا تو اس حال میں کہ اپنی حالت پر ماتم کناں تھا، ایک زمانہ تھا جب اس کی بڑی اہمیت تھی مگرآج سائینس کی ترقی نے اسے اس حال کو پہنچا دیا ہے کہ اب کوئی اس سے رجوع نہیں کرتا نہ کوئی خط ڈالتا ہے نہ ڈاکیا خط نکالنے آتا ہے۔وہ زمانے بھی تھے جب لوگ خط آنے کا انتظار کرتے تھے ڈاکیا اپنی سائیکل پر مخصوص گھنٹی بجا کر اپنی آمد کا اعلان کرتا تھا مگر وقت وقت کی بات ہے اب تو ، جی ہاں اب یہ ای میل اور ایس ایم ایس کادور ہے۔اب ہم پہنچے ہیں برنس روڈپر جو غالباً کراچی کی پہلی 



فوڈا سٹریٹ ہے، یہاں لسی پی کر تازہ دم ہوکر پھر اپنے تاریخ کے سفر پر نکل گئے۔





خالقدینا ہال


یہ ایم اے جناح روڈ پر واقع غلام حسین خالقدینا ہال اینڈ لائبریری ہے۔ اس کا خوبصورت

طرز تعمیر آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ اس کی تعمیر 1906ء میں ہوئی تھی ، کل لاگت تینتیس ہزار روپے تھی جس میں سے اٹھارہ ہزار غلام حسین خالقدینا نے دیے جبکہ باقی رقم بلدیہ کراچی نے دی۔ اس کی تعمیر ادبی سرگرمیوں کے لیے ہوئی تھی مگر اس عمارت کو خاص شہرت تب ملی جب مولوی شوکت علی اور مولوی محمد علی جوہرپر خلافت موومنٹ میں حصہ لینے کے الزام میں مقدمہ چلا، انگریزوں نے اس عمارت کو کورٹ بنا کردونوں بھائیوں پر مشہور مقدمہ بغاوت چلایا تھا۔

آرام باغ

کہا جاتا ہے کہ اس کا اصل نام رام باغ تھا اور اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ جب ہندووں کے مشہور اوتار رام، جب چودہ برس کا بن باس کاٹ رہے تھے تو وہ یہاں سے گزرے تھے ان کی پتنی سیتا اور بھائی لکشمن بھی ساتھ تھا انہوں نے یہاں رک کر کچھ وقت گزارا تھا مگر بعد میں کثرت استعمال سے رام باغ آرام باغ بن گیا۔ یہاں سکھوں کا ایک گردوارہ ہے،یہ گردوارہ اب بند ہے اس لیے ہم صرف باہر سے ہی دیکھ سکے ۔ آگے روڈ پر ایک پرانی خستہ حال مگر خوبصورت عمارت نظر آئی جس کی تفصیل نا معلوم ہے۔

ہائی کورٹ

یہ بھی ایک خوبصورت پرانی عمارت ہے۔ اس کی تعمیر 1923ء میں شروع ہوئی اور 1929ء میں مکمل ہوئی، اس پر کل لاگت 1975248 روپے آئی۔ بعد میں پاکستان حکومت نے اس میں توسیع کی مگر اصل عمارت کو یونہی رکھا اور اس سے متصل نئی عمارتیں بنوائیں۔