Friday, January 15, 2016

ایک دن کلاچی کے ساتھ قسط 6

جہانگیر کوٹھاری پریڈ


پہلے ان سیڑھیوں کی تعداد اتنی نہیں تھی یہ کراچی گورنمنٹ نے اضافہ کیا ہے۔ اس کی تاریخ
کچھ یوں ہے کہ بمبئی کے گورنر سرجورج لوئڈ کی بیگم لیڈی لوئڈ پیئر کو یہ جگہ پسند آئی تھی اور اس نے یہاں گھاٹ اور پریڈ بنانے کے لیے جناب جہانگیر کوٹھاری سے کہا۔ جہانگیر کوٹھاری چیمبر آف کامرس کے ممبر بھی تھے انہوں نے تین لاکھ روپے خرچ کر کے یہ یادگار بنا کر کراچی کے شہریوں کو عطیہ کر دی۔اس کی تعمیر 1919ء میں شروع ہوئی اور 1920ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ افتتاح لیڈی لوئڈ نے خود اپنے ہاتھ سے کیا۔اب اس میں توسیع کر دی گئی ہے اور سیڑھیاں کافی دور تک جاتی ہیں۔









جمشید نسروانجی بلڈنگ

کراچی کھارادر میں بانکڑا ہوٹل کے سامنے یہ بلڈنگ ایک سو سال سے کھڑی تھی، مالکان

نے اس کو 1991ء میں فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا کہ خریدنے والا اس کو توڑ کر یہاں کوئی بڑی شاندار بلڈنگ یا مال کھڑا کر دے گا۔ انھی دنوں انڈس ویلی سکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر والوں کو اپنے پلاٹ واقع کلفٹن پر کیمپس بنانے کا خیال آیا، وہ کوئی ایسا ڈیزائن چاہتے تھے جو آرکیٹیکچر کا شاہکار ہو۔ چند ہی دنوں بعد انڈس ویلی کے بانیوں میں سے ایک شاہد عبداللہ نے خوشی سے اعلان کیا کہ مجھے ایک خوبصورت پرانی عمارت مل گئی ہے جو کھارادر میں ہے اور برائے فروخت ہے ہم اس کو ضائع ہونے سے بچائیں گے اور اپنے پلاٹ پر منتقل کریں گے۔ یہ پتھروں سے بنی ہوئی تین منزلہ عمارت ہے جو دو بلاکس پر مشتمل ہے۔
اس کی تعمیر 1903ء میں جمشید کے والد نسروانجی رستم جی مہتا نے کروائی تھی ، انہوں نے اسے اپنی کمپنی کے آفسز اور گوداموں کے طور پر استعمال کیا بعد ازاں جمشید نسروانجی نے 1919ء میں اس کا دوسرا بلاک بنوایاجو آر سی سی سے بنوایا گیا۔
جب اس عمارت کو خریدنے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلا سوال آیا کہ کیا اس کی منتقلی ممکن ہے؟ اس سلسلے میں مختلف آراء آئیں کسی نے ماہرین کو بلانے کا کہا کسی نے یونیسکو سے

رجوع کرنے کا مشورہ دیا الغرض آخر میں فیصلہ ہوا کہ ہمیں خودانحصاری سے کام لینا ہے۔ کام شروع ہوا پہلے اس کی ڈرائینگز بنائی گئیں نقشے تیار ہوئے بیشمار تصویریں اتاری گئیں ۔ پھر تین بڑی کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا کہ اس کو محفوظ طریقہ سے توڑ کر منتقل کرنا ہے اور وقت بھی بچانا ہے۔ قرعہ فال حاجی محمدشاہ اکرم بلوچ کے نام نکلا صرف اس لیے نہیں کہ انہوں نے کم پیسے لگائے تھے بلکہ اس لیے کہ انہوں نے سب کچھ دیکھ کر اور سوچ سمجھ کر ایک حکمت عملی بنائی تھی اس پورے عمل کے لیے تین مہینے مختص کیے گئے،مگر جائداد منتقلی وغیرہ کے عمل میں تین سال گزر گئے تھے۔ اس دوران انڈس سکول کا کیمپس تعمیرہو چکا تھا جس میں نسروانجی بلڈنگ کے لیے خاص جگہ مختص کر دی گئی تھی۔ بلآخر اپریل 1995ء میں کام شروع کیا گیا ایک ایک پتھر ایک ایک لکڑی کے ٹکڑے پر نمبر ڈالے گئے اور سب چیزوں کو محفوظ طریقہ
سے نکال کر منتقلی کا عمل شروع ہوا۔یہ کام دنیا میں کوئی پہلی بار نہیں ہوا اس سے پہلے بھی عمارتیں منتقل کی گئی ہیں خاص طور پر مصر میں ایک ہرم کی عمارت کو اپنی جگہ سے جہاں پانی آ گیا تھا ایک دوسری بلند و محفوظ جگہ منتقل کیا جا چکا ہے یہ سارا عمل ہائی کوالیفائیڈ ماہرین کی زیر نگرانی ان مزدوروں نے کیا جنہیں خاص تربیتی عمل سے گزارا گیا تھا مگر یہاں خاص بات یہ تھی کہ یہ کام ان پڑھ مزدوروں نے اور ناتجربہ کار ٹیم نے مل کر ایسے کیا کہ 26000 پتھروں میں سے صرف پچاس پتھر ٹوٹے یا خراب ہوئے جنہیں تبدیل کر دیا گیا۔ روزانہ جتنے پتھر یا لکڑی کے ٹکڑے اکھاڑے جاتے تھے انہیں احتیاط سے ٹرکوں میں بھر کر کلفٹن پہنچایا جاتا تھا۔ جہاں انہیں دوبارہ نقشہ کے مطابق جوڑا جاتا تھا، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس ٹیم کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے کہ جنہوں نے اتنی بڑی ذمہ داری اٹھائی اور اسے بخوبی پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ آج یہ عمارت کلفٹن میں شان سے سر اٹھائے کھڑی ہے اس میں سٹوڈیوز کے علاوہ نمائشی ہال اور آرٹ گیلری بھی ہے۔


آج کا سفر تمام ہوا۔ قارئین سے التماس ہے کہ ماضی کو کچرا سمجھ کر نہ پھینک دیں ان جگہوں کی اہمیت سمجھیں اور ان کا وزٹ ضرور کریں.

آخر میں پرانی کراچی کی چند تصاویر








4 comments: